جدید مغربی فلسفے کی بنیاد
جدید مغرب کے نظریہ حیات کی بنیاد ایک فلسفے پر ہے: "کیونکہ میں سوچتا ہوں، لہٰذا میں ہوں”۔ یہ فلسفہ انسان کو فطرت اور کائنات سے الگ کر کے اسے ایک آزاد، سوچنے والے وجود کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس نظریے کے تحت انسان اپنی ذات اور عقل کے ذریعے دنیا کو سمجھنے، تسخیر کرنے اور اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے کا عزم کرتا ہے۔
فلسفے کے اثرات
- خدا سے لاتعلقی: اس فلسفے نے انسان کو خدا سے دور کر دیا، اور ریسرچ و سائنس کو اس کی اصل بنیاد بنا دیا۔
- روایات سے انکار: انسانی عقل کی بنیاد پر پرانی روایات کو مسترد کر کے نئی اقدار کو فروغ دیا گیا۔
- خودمختاری کا تصور: انسان کو عقل و شعور کی معراج پر رکھتے ہوئے اسے اپنے ماحول کا مرکز اور محور قرار دیا گیا۔
فلسفے کا مرکزی نکتہ
اس نظریے کا بنیادی نکتہ ہے: "میری ذات اور میری سوچ”۔ اس طرزِ فکر میں انسان کا سب سے بڑا سوال کہ "میں کون ہوں؟” اس جواب سے حل کیا گیا کہ "میں وہ ہوں جو سوچتا ہے”۔ لیکن اس کے اثرات ماضی کی روایات کو نظرانداز کرتے ہیں اور مستقبل و حال پر مرکوز رہتے ہیں۔
انسانی سوچ کی ماہیت: سائنس اور فلسفے کی روشنی میں
خیال اور اس کا منبع
- خیال کا دماغ سے تعلق: سائنس اب تک اس بات کا مکمل علم حاصل نہیں کر سکی کہ دماغ کس طرح خیالات پیدا کرتا ہے۔ نیورونز میں کیمیائی تعاملات خیالات کی تخلیق کا سبب بنتے ہیں، لیکن یہ خیالات کہاں سے آتے ہیں، یہ ایک معمہ ہے۔
- خیالات کا خارجی عامل: اگر انسان کے خیالات محض دماغ کے اندرونی عمل کا نتیجہ نہیں ہیں تو پھر ان کے لیے کسی بیرونی عامل کا ہونا ضروری ہے۔
انسانی حواس کا کردار
- حواس اور سوچ کا تعلق: انسانی حواس (آنکھ، کان، ناک وغیرہ) خیالات کے ابھرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن اگر حواس معطل ہو جائیں تو بھی انسان سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
- بیرونی غیر مرئی عنصر: یہ ممکن ہے کہ کوئی غیر مرئی عنصر انسانی دماغ پر اثر انداز ہو کر خیالات پیدا کرتا ہو۔
اخلاقیات اور آفاقی شعور
- آفاقی اخلاقیات: انسانی دماغ میں موجود اچھائی اور برائی کا تصور آفاقی نوعیت کا ہے، جو ہر انسان میں یکساں نظر آتا ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ خیالات اور اخلاقیات کے پیچھے کوئی بیرونی نظم موجود ہے۔
- "ہم” بمقابلہ "میں”: جدید فلسفے کا یہ مفروضہ کہ انسان اپنے خیالات کا خود مالک ہے، ان آفاقی اخلاقیات کے وجود سے متصادم ہے۔
فلسفے کی سائنسی خامیاں
جدید فلسفے کی بنیادیں
- یہ فلسفہ انسان کو محض ایک داخلی اکائی کے طور پر پیش کرتا ہے، لیکن سائنسی تحقیقات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ خیالات خارجی عوامل سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
- غلط مفروضہ: اگر خیالات داخلی کے بجائے خارجی ذرائع سے آتے ہیں، تو یہ فلسفہ غیر سائنسی اور غیر منطقی ثابت ہوتا ہے۔
سائنس کی محدودیت
- سائنس انسانی شعور اور خیالات کے "کیوں” کا جواب دینے سے قاصر ہے۔
- خیالات کی "آفاقیت” اور ان کے ذرائع پر سائنس خاموش ہے۔
ایک ممکنہ مفروضہ: ہگز بوزون کی مثال
جیسے ایٹم کو اس کی کمیّت "ہگز بوزون” فیلڈ سے ملتی ہے، ویسے ہی خیالات بھی کسی غیر مرئی خارجی عامل سے انسانی دماغ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس مفروضے کے تحت خیالات دماغ میں "خام شکل” میں آتے ہیں اور کیمیائی عمل کے ذریعے مکمل ہوتے ہیں۔
اسلام اور جدید فلسفے کا موازنہ
اسلام کا فلسفۂ حیات
اسلام کا نظریہ انسان کو مادے سے ماورا ایک بلند روحانی شعور کے تابع کرتا ہے۔ یہ انسان کو خالق کی تخلیق کا شاہکار اور زمین پر نائب قرار دیتا ہے۔
مادیت بمقابلہ روحانیت
- جدید فلسفہ مادیت پر مبنی ہے، جبکہ اسلام انسان کو روحانی اور نورانی شعور کا حامل قرار دیتا ہے۔
- مغربی نظریات مادی ترقی کے ذریعے انسان کی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اپنے وجود کے سوالات کا جواب دینے میں ناکام ہیں۔
مغربی فلسفے کے اثرات
- جدید فلسفہ اخلاقی اور خاندانی نظام کی شکست و ریخت کا باعث بنا۔
- مادیت پر مبنی نظریات انسان کو خدا سے مزید دور کر رہے ہیں، جبکہ اس کے وجود کے مخمصے حل نہیں کر پاتے۔
نتیجہ
یہ فلسفہ "کیونکہ میں سوچتا ہوں، لہٰذا میں ہوں” اپنی بنیاد میں ہی سائنسی اور منطقی خامیوں کا شکار ہے۔ انسان کی سوچ اور خیالات کے ماخذ پر یہ فلسفہ مکمل روشنی ڈالنے سے قاصر ہے۔ اسلام کے فلسفۂ حیات کی روشنی میں، انسان نہ صرف مادیت کا حصہ ہے بلکہ ایک برتر روحانی شعور کا حامل بھی ہے۔ یہی حقیقت جدید فلسفے کی کمزوری کو بے نقاب کرتی ہے۔