جدید ریاستوں کا ہیومن رائٹس پر مبنی استبدادی نظام
تحریر ڈاکٹر زاہد مغل

جدید ریاست اور ہیومن رائٹس کا مفروضہ

موجودہ دور کی ریاستیں "ہیومن رائٹس” کو اپنے مذہب کی طرح اپنائے ہوئے ہیں، جسے "نیوٹرل پوزیشن” کے نام پر پیش کیا جاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان حقوق کی بنیاد انسانوں کے اپنے بنائے گئے اصولوں پر ہوتی ہے۔ لیکن صرف نام بدل دینے سے حقیقت نہیں بدلتی۔

یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ جدید ریاست کسی بھی مذہب سے بالاتر ہو کر تمام شہریوں کے حقوق کا تعین کرتی ہے۔ لیکن اگر ان دعویداروں سے پوچھا جائے کہ "یہ حقوق کن بنیادوں پر طے کیے گئے ہیں؟” تو اکثر لوگ اس سوال کے جواب سے لاعلم ہوتے ہیں یا گریز کرتے ہیں۔ چند ہی لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حقوق لبرل فکر اور ہیومن رائٹس کے فریم ورک پر مبنی ہیں۔

ہیومن رائٹس کی بنیاد اور اسلامی مقدمہ

جدید ریاست کا دعویٰ یہ ہے کہ شہریوں کے حقوق ہیومن رائٹس کی بنیاد پر متعین کیے جائیں۔
اس کے برعکس ہمارا مقدمہ یہ ہے کہ حقوق کا تعین قرآن و سنت کی روشنی میں ہونا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ ایک مسلمان قرآن و سنت کو پس پشت ڈال کر مغربی فلسفے سے ماخوذ ہیومن رائٹس کو کیسے ترجیح دے سکتا ہے؟

علمی و سیاسی غلبہ اور ہیومن رائٹس

آج "ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی” کو ایک اہم حوالہ سمجھا جاتا ہے، جیسے ایک دور میں "شرعی حقوق” کی حیثیت تھی۔
جدید لوگ سوال کرتے ہیں کہ غیر مسلم لوگ شریعت کو کیوں تسلیم کریں؟ تو پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ "ہیومن رائٹس” کو وہ کیسے قبول کرتے ہیں جبکہ یہ مغربی فکر پر مبنی ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ ہیومن رائٹس، مقامی اقدار و روایات کے خلاف جبر کا ایک ذریعہ بن چکے ہیں۔ یورپی اقوام نے اپنے نوآبادیاتی دور میں اس کا بھرپور استعمال کیا۔
مثال کے طور پر، جان لاک نے اپنی فکر کے ذریعے امریکی زمینوں پر یورپی قبضے کا جواز فراہم کیا۔ اس نے کہا کہ زمین پر وہی شخص مالک ہے جو اسے "محنت” کے ذریعے قابلِ استعمال بنائے۔
یوں مقامی امریکی باشندوں کو ان زمینوں کی ملکیت سے محروم کر دیا گیا کیونکہ وہ یورپی تصورِ پراپرٹی کے مطابق زمین کا استعمال نہیں کر رہے تھے۔

بین الاقوامی قانون کی بنیاد

یورپی اقوام نے بین الاقوامی قانون کے لیے یہ اصول طے کیا کہ کوئی بھی زمین جو کسی ریاست کی ملکیت نہیں ہے (terra nullius)، اس پر قبضہ کرنے والی ریاست کی ملکیت ہوگی۔
یہ اصول زیادہ تر یورپی اقوام کے حق میں بنایا گیا اور غیر یورپی اقوام کو محکوم بنایا گیا۔

ان اصولوں کے تحت، غیر یورپی اقوام کو قومی ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے لیے تین شرائط رکھی گئیں:

  • وہ تہذیب کی ایک خاص سطح تک پہنچ چکی ہوں۔
  • یورپی بین الاقوامی قانون کو قبول کریں۔
  • بین الاقوامی برادری انہیں قبول کرے۔

یہی اصول آج بھی بین الاقوامی قوانین کی بنیاد ہیں اور ان کے ذریعے غیر مطیع اقوام کو دباؤ میں رکھا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے دوہرے معیارات

یورپی یونین نے "حقوقِ انسانی کی ترویج” کو جی ایس پی پلس کی شرط بنا دیا ہے، جس کے ذریعے پاکستان جیسے ممالک کو اپنے قوانین تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جیسے کہ سزائے موت پر پابندی۔
حال ہی میں اقوامِ متحدہ نے پاکستان سے بدکاری کو جائز قرار دینے اور انڈونیشیا سے ہم جنس پرستی کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا
(ایکسپریس ٹریبیون، 7 فروری 2018ء، 9 اپریل 2018ء)۔

اس کے برعکس اگر مسلمان ممالک یورپی اقوام سے مطالبہ کریں کہ وہ بدکاری اور ہم جنس پرستی کو جرم قرار دیں تو اسے استعماری سوچ کہا جائے گا۔
ہیومن رائٹس کے علمبردار اپنے تصور خیر کو دوسروں پر نافذ کریں تو یہ "انصاف” کہلاتا ہے، لیکن مسلمان اپنی شریعت کے مطابق قانون بنائیں تو اسے عالمگیریت کا الزام دیا جاتا ہے۔

اقبال کی بصیرت

اقبال نے ایک صدی پہلے ہی ان تضادات کو بھانپ لیا تھا:

"دیو استبداد جمہوری، قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری!”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے