پچھلے ادوار کے سادہ ایمان والے
پرانے وقتوں میں لوگ تھوڑے سے علم کے ساتھ بھی پختہ ایمان رکھتے تھے۔ ان کے عقائد کو معاشرتی تحفظ حاصل تھا اور انہیں کفر یا بے اعتقادی کے دلائل کا سامنا نہیں تھا۔ لیکن آج کے دور میں ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے نظری علم کی گہرائی ضروری ہو چکی ہے، کیونکہ جدید دنیا میں ہر طرف سے کفر اور بے اعتقادی کے حملے جاری ہیں۔
عقائد کی تعلیم کی کمی
ہمارے معاشرے میں بچوں کو عقائد یا فقہ کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ ان کے پاس بس سنی سنائی غیر مستند باتوں کا علم ہوتا ہے۔ جذباتی فضا تو قائم کی جاتی ہے، لیکن عقائد کے نظری پہلو اور ان کی گہرائی سے انہیں روشناس نہیں کروایا جاتا۔ علماء یا صالحین کی صحبت کا بھی اہتمام نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے نوجوان جدید دنیا میں جا کر اپنے کمزور علم کے باعث شک، گھٹن یا تلخی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
جدید دور کے چیلنجز اور علمِ کلام کی اہمیت
جدید افکار کے مقابلے میں اگر کسی کے پاس قدیم علمِ کلام اور فلسفے کی مضبوط بنیاد ہو تو وہ ان حملوں کو برداشت کر سکتا ہے۔ قدیم علمِ کلام میں ایسے دلائل موجود ہیں جو جدید افکار کے کسی بھی دعوے کو رد کر سکتے ہیں۔ آج کے دور میں عقائد کا نظری علم حاصل کرنا ایمان کی بقاء کے لیے ضروری ہو چکا ہے۔
جدید ماحول اور عمومی رائے عامہ کا اثر
روحانی ماحول کی کمی
شیخ عیسیٰ نورالدین کے مطابق، جب لوگ خدا اور روحانی اقدار سے دور ہونا چاہتے ہیں تو وہ ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جس میں روحانی چیزیں غیر حقیقی اور غیر ضروری لگنے لگتی ہیں۔ آج کے ماحول میں روحانیت اور خدائی حقیقت کو نظرانداز کرنے کا رجحان عام ہے، اور ایک جعلی حقیقت کو پیش کیا جا رہا ہے جس کا مرکز مادہ پرستی ہے۔
(شیخ عیسیٰ نورالدین، Understanding Islam، F. Schuon، صفحہ 37)
دورِ جدید کی ذہنی کیفیت
آج کے دور میں عمومی رائے عامہ اتنی غالب ہو چکی ہے کہ اس کے مفروضے اور نظریات پر تنقید کرنا یا انہیں رد کرنا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ یہ ماحول انسان کی اندرونی اور بیرونی دنیا کو ایک دوسرے کے مطابق ڈھال دیتا ہے، جس کی وجہ سے مذہب کے بنیادی نظریات پر بھی شک کیا جانے لگتا ہے۔
جدیدیت کے چیلنجز اور مذہب کی بقا
ایمان اور کفر کے درمیان دھندلی حدیں
آج کے دور میں کفر اور ایمان کے درمیان واضح فرق ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں کے لیے مذہب اور دنیاوی زندگی کے درمیان توازن برقرار رکھنا مشکل ہو چکا ہے۔ دنیاوی ترجیحات کو اتنا غالب کر دیا گیا ہے کہ روحانی اور مذہبی اقدار کے لیے جگہ ہی نہیں بچی۔
جدیدیت کے اثرات اور دین کی تبدیلی
سر سید احمد خان کے بعد یہ سوچ عام ہو گئی کہ عقائد پر زور نہ دیا جائے کیونکہ لوگ انہیں سننا پسند نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دین کو مغربی نظریات کے مطابق ڈھال دیا گیا، اور دین کی وہ شکل پیش کی گئی جو روحانیت سے خالی تھی۔ یہ ایک "نرم اور خوش گوار” دین تھا، جو معاصر تہذیب کے ساتھ مطابقت رکھتا تھا لیکن اس کی بنیادیں غیر قدسی تھیں۔
دین کو اصلی حالت میں پیش کرنے کی ضرورت
موجودہ دور کے خدشات
آج دین کو ایک ایسی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو لوگوں کے لیے آسان اور قابل قبول ہو۔ لیکن اس کے نتیجے میں دین اپنی اصلیت کھو بیٹھتا ہے اور صرف رسمی یا سطحی عقائد کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے۔
حقیقی دین کی طرف رجوع
اگر دین کو اس کی اصل شکل میں پیش کیا جائے، تو یہ ممکن ہے کہ لوگ اس کی طرف مائل ہو جائیں اور قربانی دینے پر بھی آمادہ ہو جائیں۔ دین کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ خدا کی حقیقت پر غور کرو، اور باقی سب کچھ خود بخود اس کی پیروی کرے گا۔
موجودہ دور میں مذہب کا تحفظ
لادین معاشروں کا غلبہ
آج کے لادین معاشرے انسان کو ایک سماجی حیوان اور اقتصادی فاعل کے طور پر محدود کر دیتے ہیں۔ ان معاشروں میں ایمان کے لیے جگہ نہیں چھوڑی جاتی، اور انسان کی روحانی حیثیت کو ختم کیا جا رہا ہے۔
مزاحمت کا راستہ
ایمان کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ دین کی جڑیں ماورائی حقیقت میں پیوست ہوں، نہ کہ سطحی یا روایتی مذہبیت میں۔ صرف یہی بنیاد ان لوگوں کو سہارا دے سکتی ہے جو تشکیک اور بے یقینی کا شکار ہیں۔
اللہ کی مدد اور ہدایت
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو کبھی گمراہی میں نہیں چھوڑتا جو انکساری، صبر اور استقلال کے ساتھ اس کی تلاش میں رہتے ہیں۔ مشکلات کے باوجود، اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نیتوں کو جانچنے اور اپنی راہ کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیتا ہے۔
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرہ: 286)
اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔