جدیدیت کے مذہبی شعور پر ریاست سماج اور ذات کے اثرات

جدیدیت کے مسلمانوں کے مذہبی شعور پر اثرات

جدیدیت نے مسلمانوں کے مذہبی شعور پر مختلف سطحوں پر گہرے اثرات مرتب کیے، جنہیں ہم چار بنیادی سطحوں پر تقسیم کر سکتے ہیں:

➊ ریاست کی سطح پر

بیسویں صدی میں جو نئی ریاستیں وجود میں آئیں، وہ جدید قومی ریاستیں تھیں۔ ان ریاستوں کی کچھ نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں:

قومی شناخت کی تعمیر:

قومی ریاست میں شناخت قوم کی بنیاد پر ہوتی ہے، اور اس سے بلند کوئی عملی تصور موجود نہیں۔ اس کا بنیادی ہدف آزادی یا سرمایہ میں اضافہ ہوتا ہے۔

بیوروکریسی کا کردار:

ریاستی بیوروکریسی سماج میں مداخلت کرتی ہے اور اس کے اصول سوشل سائنسز، بالخصوص علم معاشیات، سے اخذ کیے جاتے ہیں۔

سودی مالیاتی نظام:

جدید ریاست میں سودی اور سٹہ بازی پر مبنی بینکنگ اور مالیاتی مارکیٹیں موجود ہوتی ہیں جو عالمی نظام سے منسلک ہوتی ہیں۔

عثمانی خلافت اور جدید ریاست کا موازنہ:

خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد، جب نئی مسلم ریاستیں وجود میں آئیں، تو اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ عثمانی خلافت یا مغل سلطنت کیسے کام کرتی تھیں۔ اس کے بجائے ایک جدید ریاست قائم کی گئی، جو مسلمانوں کی اپنی تاریخ سے براہِ راست اخذ شدہ نہیں تھی۔ اس وجہ سے مذہبی طبقے نے مختلف رویے اپنائے:

  • مولانا مودودی: مولانا مودودی اصلاح کے لیے ریاست کو ضروری سمجھتے ہیں اور ٹاپ ڈاؤن اپروچ کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک جدید ریاستی ڈھانچے غیر اقداری ہیں، جنہیں اسلامی انقلاب کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
  • جہادی گروہ: یہ گروہ اقتدار کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال پر یقین رکھتا ہے، لیکن ان کے پاس کوئی واضح تعمیری ایجنڈا موجود نہیں۔
  • دعوت و تبلیغ: ان کے نزدیک ریاست کی کوئی لازمی حیثیت نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ فرد کی اصلاح سے اسلامی ریاست خود بخود اللہ کے انعام کے طور پر قائم ہو جائے گی۔
  • مسلم سیکولرز: یہ طبقہ ریاست اور مذہب کی علیحدگی کا قائل ہے، لیکن حقیقت میں سیکولر ریاست مذہب کو اپنے پیمانوں پر قابو میں رکھتی ہے۔

➋ سماج کی سطح پر

انگریزوں کے اقتدار کے دوران اور بعد میں مسلم سماج بڑی حد تک اپنی تاریخی بنیادوں پر قائم رہا، لیکن جدید ریاست نے آہستہ آہستہ سماج کو بھی جدید معاشرتی اصولوں کے مطابق ڈھالنا شروع کیا۔

خاندانی نظام اور مارکیٹ:

پہلے مسلم سماج کی بنیاد خاندان پر تھی، لیکن جدید ریاست نے معاشرتی روابط کو مارکیٹ کے اصولوں پر قائم کرنا شروع کیا۔

سول سوسائٹی کا کردار:

سول سوسائٹی انفرادی مفادات پر مبنی تنظیموں (مثلاً اساتذہ یا ڈاکٹروں کے حقوق کی تنظیمیں) سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ معاشرتی اجتماعیت کو ختم کرکے ذاتی مفادات کی بنیاد پر سماجی ڈھانچہ قائم کرتی ہے۔

مارکیٹ کا اخراجی نظام:

مارکیٹ ان افراد کو شامل کرتی ہے جو بطور صارف یا آجر مفید ہوں، جبکہ دیگر افراد کو کنارے لگا دیا جاتا ہے۔ ان افراد کی فلاح کا ذمہ این جی اوز اور سرمایہ دارانہ ریاست پر ہوتا ہے۔

اجتماعی معاشرت کا زوال:

مارکیٹ نظم کے تحت ذاتی مفادات کے علاوہ کوئی دوسری اجتماعی بنیاد (جیسے مذہبی معاشرت) ترقی نہیں کر سکتی۔ جو چیز اس نظم میں رکاوٹ بنے، اسے ریاست جبری طور پر ختم کرتی ہے۔

➌ ذات کی سطح پر

جدیدیت نے انفرادی شناخت اور شعور پر گہرے اثرات ڈالے، جس سے خود کو مسلمان کی بجائے "ہیومن” تصور کرنے کا رجحان بڑھا۔

شناخت کی تبدیلی:

جدید علمیاتی تناظر میں اسلامی احکامات کو عقل، عدل اور فطرت کے مغربی تصورات پر جانچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں اسلام کو حق کا فریق سمجھا جاتا ہے، جسے بیرونی پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے۔

اسلامائزیشن کا رجحان:

ہر جدید چیز کو "اسلامائز” کرنے کی کوشش درحقیقت شناخت کی تبدیلی کا ایک پہلو ہے۔

جنس کی بنیاد پر شناخت کی تبدیلی:

"اپنی روٹی خود پکاؤ” جیسے نعرے اور "پدرانہ معاشرہ” اور "سوشل کنسٹرکٹ” جیسے تصورات نے روایتی اسلامی شناخت کو چیلنج کیا ہے۔ ان نظریات کے تحت قرآن و سنت سے اخذ کردہ احکام کو ایک تاریخی (نہ کہ دائمی) حیثیت دی جاتی ہے۔

خلاصہ

  • ریاست کی سطح: مقاصدِ شریعت کی جگہ آزادی اور سرمایہ کے حصول نے لے لی۔
  • سماج کی سطح: محبت اور صلہ رحمی کی جگہ ذاتی مفادات نے لے لی۔
  • ذات کی سطح: عقیدے اور اخلاق کی بنیاد تبدیل ہو گئی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1