سوال
جائیداد کی تقسیم میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر جائیداد مرنے سے پہلے تقسیم کی جائے تو لڑکی اور لڑکے کو برابر حصہ دیا جائے گا، لیکن اگر مرنے کے بعد تقسیم ہو تو لڑکی کو لڑکے کے مقابلے میں آدھا حصہ ملے گا۔ بعض اہل حدیث علماء اس کے قائل ہیں جبکہ عرب علماء کا موقف ہے کہ مرنے سے پہلے یا بعد دونوں صورتوں میں لڑکی کو آدھا حصہ ہی ملے گا۔ ان دونوں میں سے کون سا موقف درست ہے؟
جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حدیث:
"فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ أَوْلَادِكُمْ، قَالَ: فَرَجَعَ فَرَدَّ عَطِيَّتَهُ”
[صحیح البخاری: 2587]
’’اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چناچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا۔‘‘
اختلاف کی بنیاد
عدل کا مفہوم:
- جنہوں نے عدل کا معنی "مساوات” (برابری) لیا ہے، وہ اس بات کے قائل ہیں کہ مرنے سے پہلے جائیداد کی تقسیم میں لڑکی اور لڑکے کو برابر حصہ دیا جائے۔
- جنہوں نے عدل کا مفہوم "ہر ایک کا حق دینا” لیا ہے، وہ اس بات کے قائل ہیں کہ مرنے سے پہلے بھی لڑکے کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ دیا جائے۔
وفات کے بعد تقسیم:
اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقرر کردہ تقسیم کے مطابق، وفات کے بعد جائیداد میں لڑکے کو دو لڑکیوں کے برابر حصہ ملے گا۔
عرب علماء کا موقف اس اصول پر مبنی ہے، اور وہ مرنے سے پہلے بھی یہی تقسیم ترجیح دیتے ہیں۔
حیات میں تقسیم:
زندگی میں جائیداد کی تقسیم وراثت یا ترکہ نہیں ہوتی، بلکہ یہ ہبہ، ہدیہ یا گفٹ کے زمرے میں آتی ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اصول اختیار کیے جا سکتے ہیں:
- اگر لڑکی اور لڑکا کسی تقسیم پر راضی ہوں (مثلاً لڑکی کو آٹھ آنے اور لڑکے کو ایک روپیہ) تو یہ جائز ہے۔
- اگر دونوں راضی نہ ہوں، تو مساوات یعنی برابر تقسیم کی جا سکتی ہے۔
- اس معاملے میں سختی کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ حالات اور رضامندی کے مطابق فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
نتیجہ
- وفات کے بعد کی تقسیم: اللہ کی مقرر کردہ تقسیم کے مطابق مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ دیا جائے گا۔
- زندگی میں تقسیم: زندگی میں یہ جائیداد ہبہ یا گفٹ کے زمرے میں آتی ہے، جس میں حالات کے مطابق مساوات یا رضامندی کے اصول اپنائے جا سکتے ہیں۔
اس معاملے میں دونوں موقف اپنی جگہ درست ہو سکتے ہیں، لیکن زندگی میں تقسیم کے لیے سختی نہیں کی جانی چاہیے۔