ثابت البنانی کے قبر میں نماز پڑھنے کی روایت کا تحقیقی جائزہ
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب العقائد، صفحہ171

سوال:

ایک روایت میں آیا ہے کہ ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی قبر میں نماز پڑھتے تھے۔ اس روایت کی حقیقت کیا ہے؟
(ماسٹر انور سلفی، حاصل پور، ضلع بہاولپور)

الجواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ کی دعا کے حوالے سے روایت

حماد بن سلمہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ثابت بن اسلم البنانی رحمۃ اللہ علیہ نے دعا کی:

"اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا الصَّلَاةَ فِي قَبْرِهِ ، فَأَعْطِنِي الصَّلَاةَ فِي قَبْرِي”
(طبقات ابن سعد 7/233، وسندہ صحیح)

ترجمہ: "(اے اللہ!) اگر تو نے کسی کو اس کی قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے، تو مجھے بھی میری قبر میں نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرما۔”

عبداللہ بن شوذب سے روایت ہے کہ میں نے ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا:

"اللهُمَّ إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ ، يُصَلِّي لَكَ فِي قَبْرِهِ : فَأعْطِنِيهِ”
(المعرفۃ والتاریخ لیعقوب بن سفیان الفارسی 2/99، وسندہ حسن، حلیۃ الاولیاء 2/319)

یہ صرف ایک دعا ہے جو ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ نے مانگی تھی، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ حقیقت میں اپنی قبر میں نماز پڑھتے تھے۔

ضعیف اور موضوع روایات جو قبر میں نماز پڑھنے کے متعلق ہیں

یوسف بن عطیہ (جو متروک راوی ہیں) سے مروی ہے:

"فَأذن لِثَابِت أن يُصَلِّي فِي قَبره”
(حلیۃ الاولیاء 2/319)

ترجمہ: "پس ثابت البنانی کو ان کی قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی۔”

یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے، کیونکہ اس کا راوی یوسف بن عطیہ سخت ضعیف ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرمایا: "منکر الحدیث”
(کتاب الضعفاء، بتحقیقی: 422)
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "متروک الحدیث”
(کتاب الضعفاء: 617)

اسی طرح، جسر بن فرقد سے روایت ہے کہ اس نے ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ کو قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا:

(حلیۃ الاولیاء 2/319)

یہ روایت بھی موضوع ہے کیونکہ اس کی سند انتہائی ضعیف ہے۔

سند کی خرابیاں:

◈ جسر بن فرقد:
امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "متروک”
(سوالات البرقانی: 70)
وہ ضعیف اور متروک ہے۔ (تحفۃ الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء: 54)

◈ شعبان بن جسر:
نامعلوم راوی ہے۔

◈ محمد بن سنان القزاز:
ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب: 5936)

◈ اسماعیل بن الکرابیسی:
مجہول الحال ہے۔

◈ ابو عمرو عثمان بن محمد:
نامعلوم راوی ہے۔

نتیجہ:
یہ روایت سخت ضعیف اور ناقابل قبول ہے، لہذا ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ کے قبر میں نماز پڑھنے کا دعویٰ غلط اور بے بنیاد ہے۔

غلط استدلال اور اس کا رد

یہ روایت عبدالحئی لکھنوی صاحب نے بغیر تحقیق کے "حلیۃ الاولیاء” سے نقل کی اور پھر زکریا دیوبندی نے "فضائل نماز” میں
(ص 69-70)
اسے عوام کے سامنے پیش کر دیا۔ نور محمد قادری دیوبندی نے بھی "ماہنامہ الخیر” ملتان
(جلد 24، شمارہ: 5، جون 2006ء، ص 25/249)
میں اس سے قبر میں نماز پڑھنے اور عقیدہ حیات قبر کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کی۔

لیکن یہ استدلال غلط ہے کیونکہ:

◈ روایت کی سند ضعیف اور موضوع ہے۔
◈ اسے صحیح حدیث یا قرآن کی کسی دلیل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
◈ علماء کو چاہیے کہ وہ ایسی ضعیف و مردود روایات عوام میں پیش نہ کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

"مَنْ صَمَتَ نَجَا”
(کتاب الزہد لابن المبارک: 385، وسندہ حسن، سنن الترمذی: 2501)

ترجمہ: "جو خاموش رہا، وہ نجات پا گیا۔”

خلاصہ التحقیق

ثابت شدہ بات:
◈ ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ نے قبر میں نماز پڑھنے کی دعا مانگی تھی۔

غیر ثابت بات:
◈ یہ کہ وہ حقیقت میں قبر میں نماز پڑھتے تھے۔

موضوع اور ضعیف روایات:
◈ یوسف بن عطیہ اور جسر بن فرقد کی روایات ناقابل اعتماد ہیں۔

نتیجہ:
ضعیف اور من گھڑت روایات کی بنیاد پر یہ کہنا کہ ثابت البنانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی قبر میں نماز پڑھتے تھے، غلط اور ناقابل قبول ہے۔

(5/جمادی الاولیٰ 1427ھ، الحدیث: 28)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1