مبارک حیدر کی کتاب "تہذیبی نرگسیت”
ایک اہم تصنیف ہے جس نے علمی اور فکری حلقوں میں خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ اس کتاب پر میرے خیالات درج ذیل ہیں، تاہم یہ پیش نظر رہے کہ میرے اور صاحبِ کتاب کے نظریات میں نمایاں اختلافات ہیں، اور اس لیے میرے تجزیے میں ممکنہ جانبداری کو مدنظر رکھا جائے۔
کتاب کا مرکزی موضوع
"تہذیبی نرگسیت” میں مغرب کی برتری اور اسلامی تہذیب کی خامیوں پر مبنی ایک بیانیہ پیش کیا گیا ہے۔ مصنف کی توجہ زیادہ تر مغربی تہذیب کی کامیابیوں اور اسلامی تہذیب کے زوال پر مرکوز ہے۔
کتاب کے ابواب
◈ اسلامی سلطنت کا مغالطہ
◈ آزاد میڈیا کا مبالغہ
◈ عدلیہ کے تقدس کا مبالغہ
◈ علم کی ملکیت کا مغالطہ
◈ سیکولرازم کا مغالطہ
حوالہ جات کی کمی
مصنف نے علمی انداز اپناتے ہوئے کئی اہم موضوعات پر بحث کی ہے، لیکن اس کتاب میں حوالہ جات کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ تحقیقاتی کتابوں میں حوالہ جات کا ہونا ضروری ہے تاکہ قاری معلومات کی تصدیق کر سکے۔ اگرچہ مصنف جدید تہذیب کی تعریف کرتا ہے، لیکن وہ خود اپنی کتاب میں اس علمی معیار کو اپنانے میں ناکام رہا ہے۔
مغربی تہذیب کی تعریف اور اسلامی تہذیب پر تنقید
مصنف مغربی تہذیب کو جدید انسانی تہذیب کا بہترین نمونہ قرار دیتا ہے اور اسے دنیا کی ترقی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے، جبکہ اسلامی تہذیب کو ماضی کی خامیوں کا شکار قرار دیتا ہے۔ لیکن جب مغربی تہذیب کی دو عظیم جنگوں اور نوآبادیاتی نظام کی بات آتی ہے، تو مصنف ایک معذرت خواہانہ انداز اختیار کرتا ہے، مثلاً وہ لکھتے ہیں: "فاشزم اور نوآبادیاتی نظام کے باوجود مغربی معاشروں کے نظریات کی طاقت کم نہیں ہوئی بلکہ یہ دنیا بھر میں نوآبادیات کی آزادی کا سبب بنے۔”
آزادیاں اور مغربی معاشرت
مصنف نے مغرب کی ذاتی آزادیوں کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ: "جدید تہذیب نے آزادی اور حقوق کو تسلیم کیا ہے، جس کی وجہ سے بعض معاشرتی الجھنیں پیدا ہوئیں، لیکن یہ اس تہذیب کی بنیادی شناخت نہیں۔” یہاں یہ بحث کھلتی ہے کہ آیا مغربی معاشروں کی بے انتہا آزادیوں کے نتائج واقعی مثبت ہیں یا نہیں۔
اسلامی تہذیب کی تنقید
اسلامی تہذیب کے حوالے سے مصنف نے ہر طرح کے استدلال کو رد کر دیا ہے۔ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی جیسے واقعات پر مغرب کا دفاع کرتے ہوئے وہ اسلامی معاشروں کی ہر خامی کو نمایاں کرتے ہیں۔ مثلاً، اسلامی خلافت کے قیام کو وہ ایک مغالطہ قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کی تاریخی کامیابیوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔
مصنف کی سیاسی وابستگیاں
مصنف کی ذاتی زندگی کے حوالے سے کچھ تاریخی تنقیدیں بھی سامنے آئی ہیں۔ ان کی سیاسی وابستگی، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ، اور اس کا اثر ان کی تحریر میں واضح نظر آتا ہے، جہاں وہ عدلیہ اور میڈیا پر بھی سخت تنقید کرتے ہیں۔
تنقیدی تجزیہ
کتاب کی اہمیت اپنی جگہ، مگر اس میں چند قابل غور نکات ہیں:
◈ حوالہ جات کی کمی نے اس کتاب کی علمی حیثیت کو مجروح کیا ہے۔
◈ مغربی تہذیب کے دفاع میں غیر جانبدارانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا۔
◈ اسلامی تہذیب کے حوالے سے مصنف نے یک طرفہ تنقید کی ہے جو ایک متوازن تجزیے کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔
نتیجہ
"تہذیبی نرگسیت” ایک فکری کتاب ہے، لیکن اسے پڑھتے وقت یہ ضروری ہے کہ قاری اسلامی تہذیب کے اصول و مبادیات اور دیگر مستند ذرائع سے بھی رجوع کرے تاکہ ایک متوازن نقطہ نظر حاصل ہو۔