تکفیری اور مرجئہ امت کی انتہائیں اہل سنت کا موقف
تحریر: حامد کمال الدین

تکفیری تحریک کا آغاز

ساٹھ کی دہائی میں مصر کی جیلوں میں ایک جماعت بنی جس نے اپنا نام "جماعۃ المسلمین” رکھا، لیکن عام طور پر اسے "جماعۃ التکفیر والہجرۃ” کے نام سے پکارا گیا۔

"تکفیر”: کا مطلب ہر شخص کو کافر قرار دینا تھا، اور
"ہجرۃ”: کا مطلب معاشرے کو چھوڑ کر الگ تھلگ رہنے کی دعوت دینا۔
یہ لوگ موجودہ معاشروں کو "جاہلی” قرار دیتے اور ان کے افراد کو کافر سمجھتے۔ ان کا نظریہ تھا کہ معاشروں کے اندر رہتے ہوئے بھی شعوری طور پر خود کو ان سے الگ سمجھا جائے، جیسا کہ ایک مسلمان کسی غیر مسلم معاشرے میں رہتا ہے۔

تکفیری نظریات اور طریقہ کار

مسلمانوں کی تکفیر:

◄ یہ جماعت معاشرے کے عام افراد کو کافر سمجھتی، حتیٰ کہ اسکول کے ایک چپڑاسی کو بھی۔ جو ان کے نظریات سے متفق نہ ہو، وہ بھی ان کے نزدیک کافر تھا۔
◄ انہوں نے "من لم یُکَفّر الکافر فہو کافر” جیسے اصول کی غلط تعبیر کی۔

علماء اور دینی جماعتوں سے دشمنی:

◄ ان کا بڑا ہدف علماء اور دینی جماعتیں بنیں، کیونکہ یہ ان کی گمراہی کو واضح کرتے تھے۔
◄ ان کی جنگ اسلام پسند تحریکوں اور داعیانِ دین کے خلاف رہی۔

عامۃ المسلمین سے علیحدگی:

◄ یہ لوگ عام مسلمانوں کو بھی "کفار” سمجھتے تھے، ان کے ساتھ نماز پڑھنے، سلام کرنے یا ذبیحہ کھانے کو بھی ناجائز کہتے۔
◄ یہ علیحدگی ایک الگ ملت کے طور پر خود کو پیش کرنے کی صورت اختیار کر گئی۔

مصر کے علماء کا ردعمل

مصری علمائے اہل سنت نے ان کے نظریات کو سختی سے رد کیا اور انہیں "تکفیری” کہا، کیونکہ:
◄ یہ لوگ مسلم معاشروں کو کافر قرار دیتے تھے۔
◄ ان کے نزدیک مسلم معاشرے اسلام کی ابتدائی صدیوں کے بعد ہی مرتد ہو چکے تھے۔

تکفیریوں کا مقصد

نظام یا حکومت کے بجائے علماء اور دینی جماعتوں کو نشانہ بنانا: ان کے نزدیک اصل دشمن وہ دینی جماعتیں اور علماء تھے جو دین کی صحیح تشریح کرتے تھے۔
اسلامی معاشروں کو کفریہ قرار دینا: ان کا خیال تھا کہ یہ معاشرے مکمل طور پر کفر میں ڈوب چکے ہیں اور انہیں علیحدگی اختیار کرنی چاہیے۔

مرجئہ کون لوگ ہیں

مرجئہ کی تعریف

"مرجئہ”: کا مطلب ہے "پیچھے ہٹانے والے” یا "مؤخر کرنے والے”۔
◄ یہ فرقہ ایمان کو صرف دعویٰ اور نیت سے منسلک کرتا ہے اور عمل کو ایمان سے جدا سمجھتا ہے۔
◄ ان کے نزدیک کبیرہ گناہوں پر اصرار کرنے والے یا کفر کے افعال کرنے والے کو بھی کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔

خوارج اور مرجئہ کے درمیان اہل سنت کا موقف

مرجئہ: ان کے نزدیک عمل کی حیثیت ایمان میں ثانوی ہے۔
خوارج: یہ ہر بڑے گناہ کے مرتکب کو کافر سمجھتے تھے۔
اہل سنت: کبیرہ گناہ کرنے والا فاسق ہے، لیکن دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا، جب تک کہ وہ اعمال جو صریحاً کفر ہوں (مثلاً شرک) کا ارتکاب نہ کرے۔
لیکن اس تکفیر کے لیے علمی وضاحت، شعور، اور جبر و اکراہ کی غیر موجودگی ضروری ہے۔

مرجئہ کا ردعمل اور تکفیر کے اصولوں پر حملہ

آج کے مرجئہ نظریات: کے حاملین تکفیریوں کی مخالفت میں حد سے آگے بڑھ چکے ہیں:
◄ ان کے نزدیک کسی کی تکفیر کرنا سرے سے غلط ہے، چاہے اس کی کتنی ہی مضبوط دلیل ہو۔
◄ ان کے مطابق کسی کو کافر کہنا گویا خدا کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے۔

عقائد میں نقب اور جدید ارجائی فکر

کافر اور مسلم کا فرق مٹانے کی کوشش: مرجئہ عقائد میں یہ نظریہ پروان چڑھ رہا ہے کہ کسی کو کافر کہنا یا مسلم سے جدا قرار دینا ختم ہونا چاہیے۔
◄ حتیٰ کہ ہندوؤں اور دیگر مشرکوں کو بھی "کافر” کہنا ان کے نزدیک جائز نہیں۔
شرعی احکام کی منسوخی: مرجئہ کے نزدیک دنیا میں مسلم اور کافر کے درمیان تمیز کے احکام غیر ضروری ہیں، حالانکہ قرآن و سنت اس کی واضح تعلیم دیتے ہیں۔

وحدتِ ادیان اور گلوبلائزیشن کی آڑ

وحدتِ ادیان تحریک: اس تحریک کا مقصد تمام مذاہب کو برابر قرار دینا اور کافر و مسلم کا فرق ختم کرنا ہے۔
◄ مرجئہ کی سوچ اس تحریک کو تقویت دیتی ہے، کیونکہ یہ ایمان و کفر کی حدود کو مٹانے کی وکالت کرتی ہے۔
اسلام کی برتری کو مٹانے کی سازش: اسلام کو دیگر ادیان کے برابر لا کھڑا کرنے کے لیے "کافر” اور "مشرک” جیسی اصطلاحات کو متروک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

نتیجہ

◄ تکفیری اور مرجئہ، دونوں انتہائیں:
◄ ایک جانب تکفیری، جو ہر شخص کو کافر قرار دیتے ہیں، اور
◄ دوسری جانب مرجئہ، جو ایمان و کفر کا فرق ہی مٹا دینا چاہتے ہیں۔
◄ ان دونوں نظریات کے مقابلے میں اہل سنت کا معتدل راستہ ہمیشہ درست رہا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1