ملحدین کا اعتراض:
ملحدین و مستشرقین یہ اعترا ض کرتے ہیں کہ قرآن میں تو اللہ نے فرمایا ہے کہ: ’’وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا‘‘ ’’اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا ہوتا تو وہ اس کے اَندر بڑا اختلاف پاتے۔‘‘ (سورۃ النساء: 82) جبکہ مسلمانوں میں قرآن کی سات مختلف قراتیں رائج ہیں جو ملحدین کے بقول قرآن میں اختلاف کو ظاہر کرتا ہے۔
قرآن اور قراءات میں فرق
قرآن اللہ کی وحی ہے، جو نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی۔
قراءات کا مطلب قرآن کے الفاظ کی ادائیگی میں اختلاف یا مختلف انداز ہیں۔
حوالہ: (البرہان، جلد 1، صفحہ 218)
نصِ قرآنی میں اختلاف کا دائرہ
نص قرآنی میں اختلاف صرف ادائیگی کے انداز (کیفیت) تک محدود ہے، جیسے حذف و اضافہ یا الفاظ کے تلفظ میں فرق۔
تمام مختلف اندازوں کو نبی ﷺ نے تحریر کروایا اور وہ منزل من اللہ ہیں۔
حوالہ: (المرشد الوجیز، صفحہ 138)
قرآن میں اختلاف: تضاد یا تنوع؟
تضاد ممکن نہیں
اللہ تعالیٰ کے کلام میں تضاد ممکن نہیں، کیونکہ یہ اس کی حقانیت کا ثبوت ہے:
’’وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا‘‘
’’اور اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے آیا ہوتا تو وہ اس کے اَندر بڑا اختلاف پاتے۔‘‘
(سورۃ النساء: 82)
اختلاف کا مطلب
اس آیت میں "اختلاف” کا مطلب تضاد (Contradiction) ہے، تنوع (Variety) نہیں۔
قرآن کی تعلیمات اور مضامین میں کوئی تضاد نہیں، جیسا کہ وہ توحید کا درس دیتا ہے اور کبھی شرک کو جائز نہیں قرار دیتا۔
تنوع کی مثال
اختلاف کا مطلب تنوع ہو سکتا ہے، جیسے ذوق کا مشہور شعر:
گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن،
اے ذوق! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
قرآن میں تنوع کا ذکر
’’وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ‘‘
’’اور تمہاری بولیوں اور رنگوں کا اختلاف یعنی ایک دوسرے سے مختلف ہونا۔‘‘
(سورۃ الروم: 22)
قرآن میں تنوع کے اختلافات
قرآن کے چند تنوعات:
- سورتوں کی لمبائی میں فرق (کچھ طویل، کچھ مختصر)۔
- رکوعات کا حجم مختلف۔
- سورتوں میں آیات کی تعداد کا فرق۔
- ایک سورت کے کئی نام (جیسے سورۃ بنی اسرائیل کو سورۃ الاسراء بھی کہتے ہیں)۔
- ہر سورت کا آغاز "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ” سے ہوتا ہے، سوائے سورۃ توبہ کے۔
- کچھ سورتیں حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں، کچھ دیگر انداز سے۔
- تاریخی واقعات کو مختلف مقامات پر مختلف انداز میں بیان کیا گیا۔
- نبی کریم ﷺ کے لیے مختلف القابات کا استعمال (یَا أَیُّھَا الرَّسُول، یَا أَیُّھَا النَّبِی، یَا أَیُّھَا الْمُزَّمِّل)۔
قراءات کا اختلاف بھی تنوع ہے
قرآنی قراءات میں جو اختلاف ہے، وہ تضاد نہیں بلکہ تنوع (Variety) ہے۔
مستشرقین کے اعتراضات اور ان کے جوابات
بائبل اور قرآن کا موازنہ غلط کیوں؟
موجودہ بائبل اللہ کی اصل وحی نہیں بلکہ انسانوں کے کیے گئے تراجم ہیں، جن میں مختلف نسخے تضادات سے بھرپور ہیں۔
بائبل کے الفاظ حضرت موسیٰؑ یا حضرت عیسیٰؑ سے ثابت نہیں، جبکہ قرآن اور قراءات کے ایک ایک حرف کی اسناد نبی کریم ﷺ تک متصل ہیں۔
قرآن اور قراءات کی صداقت
قرآن میں کوئی تضاد موجود نہیں، اور قراءات میں جو تنوع ہے وہ نبی ﷺ کی اجازت سے ہے۔
ہر قراءت کے پیچھے متواتر اسناد موجود ہیں، جو اس کے مستند ہونے کا ثبوت ہیں۔
قراءات میں اختلاف کیسے پیدا ہوا؟
اللہ کی سہولت
اللہ نے قرآن کو مختلف قراءات میں نازل کر کے سہولت فراہم کی، تاکہ لوگ آسانی سے یاد کر سکیں۔
نبی کریم ﷺ نے مختلف انداز میں تلاوت کی اجازت دی، جیسا کہ حدیث میں ہے:
"أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف”
’’قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا۔‘‘
(بخاری: 4992)
حضرت عثمانؓ کا اقدام
بعض دور دراز کے لوگوں نے منسوخ قراءات یا تفسیری نکات کو قرآن سمجھ کر تلاوت شروع کر دی۔
حضرت عثمانؓ نے حفاظ اور کاتبین صحابہ کی نگرانی میں ایک متفقہ نسخہ تیار کروایا، تاکہ اختلاف ختم ہو۔
عثمانی نسخہ کی مثال
یہ اقدام ایسے ہی تھا جیسے آج کسی اسلامی حکومت کی جانب سے قرآن کے طباعتی نقائص سے پاک نسخے شائع کر کے لوگوں کو ان کا پابند کرنا۔
سبعہ احرف کی تشریح
سبعہ احرف کا مطلب
سبعہ احرف کا مطلب قراءات کے متعدد انداز ہیں، جیسا کہ نبی ﷺ نے صحابہ کو سمجھایا۔
علماء کے درمیان سبعہ احرف کی تشریح میں اختلاف ہے، مگر یہ اختلاف محض تعبیر کا ہے، نہ کہ قراءات کی صداقت کا۔
ابن جزری رحمہ اللہ کا قول
امام ابن جزری فرماتے ہیں کہ سبعہ احرف کی تشریح ایک مشکل موضوع ہے، جس پر انہوں نے 30 سال غور کیا۔
ان کے مطابق سبعہ احرف میں لہجات اور لغات سمیت مختلف اقسام کے چھ مزید اختلاف شامل ہیں۔
سبعہ احرف اور قراءات عشرہ
موجودہ قراءات عشرہ سبعہ احرف کا حصہ ہیں۔
سبعہ احرف کی تعبیر میں اختلاف کے باوجود، اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ موجودہ قراءات متواتر اور صحیح ہیں۔