تشہد سے متعلق 10 صحیح احادیث و رہنمائیاں

نماز کے تشہد کی دعا اور اس سے متعلق رہنمائی

تشہد کی دعا (تحیات) کی تعلیم

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب تم نماز میں (قعدہ کے لیے) بیٹھو تو یہ پڑھو:

اَلتََّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، اَشْہَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ، وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ۔

ترجمہ:

’’میری ساری قولی، بدنی اور مالی عبادت صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ اے نبی! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت، سلامتی اور برکتیں ہوں، اور ہم پر اور اللہ کے دوسرے نیک بندوں پر بھی سلامتی ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔‘‘

پھر فرمایا:

’’پھر جو دعا پسند ہو وہ مانگو۔ ان کلمات کو ادا کرنے سے ہر نیک بندے کو، خواہ وہ زمین پر ہو یا آسمان میں، نمازی کا سلام پہنچ جاتا ہے۔‘‘

(بخاری، الاذان باب التشھد فی الاخرۃ، ۱۳۸، ومسلم، الصلاۃ، باب التشھد فی الصلاۃ، ۲۰۴)

تشہد کے الفاظ میں تبدیلی کا پس منظر

سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

’’جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود رہے ہم
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ
کہتے رہے، جب آپ فوت ہو گئے تو ہم نے خطاب کا صیغہ چھوڑ کر غائب کا صیغہ پڑھنا شروع کر دیا، یعنی پھر ہم
اَلسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ
پڑھتے تھے۔‘‘

(بخاری، الاستئذان، باب الاخذ بالیدین، ۵۶۲۶)

ان دونوں جملوں کا مطلب

پہلے جملے
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ
کا مطلب ہے:
"اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پر سلامتی ہو۔”

دوسرے جملے
اَلسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ
کا مطلب ہے:
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو۔”

اس سے حاصل ہونے والا عقیدہ

یہ واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب یا حاضر ناظر نہیں سمجھتے تھے۔ اگر وہ ایسا عقیدہ رکھتے تو وہ
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ
کے بجائے
اَلسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ
نہ پڑھتے۔

اس بات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ:

◈ تشہد کے الفاظ
اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَیُّہَا النَّبِیُّ
شرکیہ عقیدے کی تائید نہیں کرتے۔

◈ مسلمان یہ الفاظ سنت کی پیروی میں پڑھتے ہیں۔

◈ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا سلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک خود پہنچاتے ہیں۔

(ابو داود، المناسک، باب زیارۃ القبور، ۲۴۰۲)

سلام پہنچانے کا طریقہ

جس طرح ایک دوسرے کو خط لکھ کر بصیغہ خطاب سلام بھیجا جاتا ہے، اسی طرح نماز میں پڑھا جانے والا سلام بھی اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں۔

لہٰذا:

◈ تشہد میں جو سلام پڑھا جاتا ہے، وہ اس صلوٰۃ و سلام کی دلیل نہیں بن سکتا جو لوگ اذان سے پہلے یا اٹھتے بیٹھتے پڑھتے ہیں:
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ
اور یہ سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا سلام براہ راست سن رہے ہیں۔

◈ دراصل، صحابہ کی پیروی میں ہی کامیابی ہے اور خود ساختہ اعمال بدعت ہیں، جو گمراہی کا سبب بن سکتے ہیں۔
(ع،ر)

درمیانی تشہد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیانی تشہد سے فارغ ہو کر کھڑے ہو جاتے تھے۔

(مسند الإمام أحمد: ۱/۹۵۴، ۲۸۳۴ – اس کی سند صحیح ہے)

لہٰذا:

◈ درمیانی تشہد میں صرف تشہد پڑھنا کافی ہے۔

◈ البتہ اگر کوئی شخص تشہد کے بعد درود اور دعا کرنا چاہے تو یہ بھی جائز ہے۔

درمیانی تشہد میں دعا مانگنے کی اجازت

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب تم دو رکعت پر بیٹھو تو التحیات کے بعد جو دعا زیادہ پسند ہو وہ کرو۔‘‘
(نسائی، التطبیق، باب کیف التشھد الاول، ۴۶۱۱)

دعا سے پہلے درود پڑھنا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب کوئی نماز پڑھے تو پہلے اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرے، اس کی تعریف کرے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے، پھر اپنے لیے جو چاہے دعا مانگے۔‘‘

(ابو داود، الوتر، باب الدعاء، ۱۸۴۱ – اسے حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا)

لہٰذا:

◈ درمیانی تشہد میں صرف تشہد پڑھنا ضروری ہے۔

◈ مگر تشہد کے بعد درود اور دعا کرنا بھی درست ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1