تجارت کے مسائل
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

كتاب البيوع
تجارت کے مسائل
بیع کا مطلب ہے باہم رضامندی سے ایک چیز کے بدلے میں دوسری چیز لینا۔ تجارت کو مشروع قرار دیا گیا ہے،
فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
﴿أَحَلَّ اللهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرَّبو﴾ [البقره: 275]
”اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے ۔
البتہ اسلام نے تجارت کی ان صورتوں کو منع قرار دیا ہے جس سے فریقین میں سے کسی ایک کو نقصان ہوتا ہو یا کسی ناجائز اور حرام طریقے سے مال کمایا جائے۔ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر جمیع شعبوں میں راہنمائی کی طرح تجارت کے بھی زریں اصول مہیا فرمائے ہیں ۔ ان اصولوں کو توڑنا نہ صرف تجارت میں خسارے اور مال میں بے برکتی کا باعث ہے بلکہ غضب الہی مول لینے کا بھی سبب ہے۔ اس لیے ان سے بچتے ہوئے تجارت کے جائز اور مشروع طریقوں کو اپنانا چاہیے۔
[ ص: 488] 253 – الْحَدِيثُ الْأَوَّلُ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ أَنَّهُ قَالَ { إذَا تَبَايَعَ الرَّجُلَانِ ، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا وَكَانَا جَمِيعًا ، أَوْ يُخَيِّرُ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ . فَتَبَايَعَا عَلَى ذَلِكَ . فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ } .
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب دو آدمی آپس میں خرید و فروخت کرتے ہیں تو ان دونوں میں سے ایک کو اس وقت تک (وہ سودا ختم کرنے کا) اختیار ہوتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہو جائیں اور (جب تک ) اکٹھے رہیں یا ان میں سے ایک شخص دوسرے کو اختیار دے ، پھر وہ اس (شرط ) اختیار پر خرید و فروخت کریں تو بیع (یعنی وہ خرید و فروخت) پکی ہو جائے گی ۔
شرح المفردات:
الخيار: خرید و فروخت کرتے وقت اس بات کا اختیار لینا یا دینا کہ وہ اس سودے کو چاہے تو رکھ لے گا اور اگر چاہے گا تو واپس لوٹا دے گا۔
البيع: سودا، تجارت ، خرید و فروخت۔
شرح الحدیث:
اس حدیث میں اختیار کی دو صورتیں بیان کی گئی ہیں: ایک تو یہ بائع اور مشتری دونوں جدا نہ ہو جائیں اور جب تک اکٹھے رہیں تب تک انھیں اختیار ہے اور دوسری یہ کہ وہ سودا کرتے ہوئے آپس میں یہ طے کر لیں کہ فلاں مدت تک تمھیں یہ چیز واپس کرنے کا اختیار حاصل ہے، لہذا ان دونوں کے جدا ہونے یا اس مدت کے گزر جانے سے اختیار ساقط ہو جائے گا۔
(253) صحيح البخارى، كتاب البيوع ، باب اذا خير أحدهما صاحبه بعد البيع فقد وجب البيع ، ح: 2112. صحيح مسلم ، كتاب البيوع ، باب ثبوت خيار المجلس للمتبايعين ، ح: 1531
254 – الْحَدِيثُ الثَّانِي: قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ { الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا – أَوْ قَالَ: حَتَّى يَتَفَرَّقَا – فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا . وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا } .
اس معنی میں سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، اور وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو خرید و فروخت کرنے والے تب تک (سودا ختم کرنے کا ) اختیار رکھتے ہیں جب تک کہ وہ جدا نہ ہو جائیں ، یا فرمایا: یہاں تک کہ وہ جدا ہو جائیں، چنانچہ اگر وہ سچ بولیں اور (اس کے خصائل و عیوب ) واضح کر دیں تو ان کی تجارت میں برکت ڈال دی جائے گی لیکن اگر وہ دونوں (اس کی خامیاں اور عیوب) چھپائیں اور جھوٹ بولیں تو ان کی تجارت سے برکت ختم کر دی جائے گی۔
شرح المفردات:
البيعان: بیچنے والا اور خریدنے والا ۔
محقت: زائل کر دی جائے گی، ختم کر دی جائے گی ، مٹادی جائے گی ۔ / واحد مؤنث غائب، فعل ماضی مجہول، باب فتح يفتح ۔
شرح الحدیث:
حدیث کے دوسرے حصے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشی ترقی کا ایک سنہرا اصول بیان فرمایا ہے اور یہ واضح فرمایا ہے کہ بائع اور مشتری کے نفع و نقصان کا ذمہ خود انھی پر ہے، کیونکہ اگر وہ سچ بولیں گے اور خریدی یا بیچی جانے والی چیز کے تمام خصائل و نقائص سچ سچ بتا دیں گے اور کسی قسم کی پردہ داری نہیں رکھیں گے تو نہ صرف وہ جھوٹ اور حق فراموشی کے گناہ سے بچ جائیں گے بلکہ مال وزر میں برکت کا سامان بھی کریں گے ، یعنی دنیوی و اخروی ہر دو لحاظ سے فائدہ حاصل کریں گے ۔ لیکن اگر وہ کذب و کتمان سے کام لیں گے تو برکت ان کے قریب بھی نہیں پھٹکے گی اور سب کچھ ہونے کے باوجود بھی معاشی مسائل میں جکڑ کر رہ جائیں گے۔
راوى الحديث:
حکیم بن حزام بن خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی بن کلاب ۔ آپ کی کنیت ابو خالد تھی۔ آپ ام المومنین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے تھے۔ فتح مکہ کے سال اپنے چار بیٹوں سمیت اسلام قبول کیا۔ جنگ بدر میں مشرکین کی طرف سے شریک ہوئے تھے۔ قبول اسلام کے بعد اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا فرمایا کرتے تھے کہ اس نے بدر میں قتل ہونے سے بچا لیا۔ آپ کی ولادت واقعہ فیل سے تیرہ برس قبل ہوئی ۔ 60 سال کی زندگی حالت کفر اور ساٹھ سال حالت اسلام میں گزار کر ایک سو بیس برس کی عمر میں وفات پائی۔
(254) صحيح البخاري، كتاب البيوع ، باب البيعان بالخيار مالم يتفرقا ، ح: 2110 – صحيح مسلم ، كتاب البيوع ، باب الصدق فى البيع والبيان ، ح: 1532

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!