بے بنیاد موازنے اور ذمہ داریوں کی تقسیم

دلچسپ ٹیکسٹ میسج اور مضحکہ خیز موازنے

ایک دوست نے دلچسپ ٹیکسٹ میسج بھیجا:
"پاکستان کا کوئی کچھ نہیں کر سکتا، یہاں سب بگاڑ کا شکار ہے۔ ڈاکٹر ہسپتالوں میں صحیح کام نہیں کر رہے، مگر درزی ہیں کہ روز اپنے سوٹ سیتے جا رہے ہیں۔”
یہ میسج پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ وضاحت طلب کی تو جواب آیا:
"انجینئر پل اور سڑکیں صحیح نہیں بنا رہے، کرپشن عروج پر ہے، مگر کسان اپنی فصلوں میں مصروف ہیں اور ٹیچرز سکولوں میں پڑھا رہے ہیں۔”

مزید وضاحت کرنے پر دوست نے کہا کہ یہ آج کل کے بے بنیاد موازنے اور مضحکہ خیز دلائل کا حال ہے۔
جس طرح سائنس میں ناکامی کا الزام دینی علماء کو دیا جاتا ہے، ویسے ہی یہ موازنہ بھی ممکن ہے کہ ڈاکٹروں کی کوتاہیوں پر درزیوں کو الزام دیا جائے۔

مضحکہ خیز موازنے اور بے جا تنقید

آج کل تنقید کے نام پر ہر شعبے کو بلاوجہ نشانہ بنانا عام ہو چکا ہے۔
علماء کے کردار کو بغداد کی شکست سے جوڑ کر یہ مشہور کیا گیا کہ اُس وقت علماء فقہی مسائل میں الجھے رہے،
حالانکہ بغداد کی شکست کے ذمہ دار سیاسی اور فوجی عوامل تھے۔
خلیفہ کی نااہلی، وزیراعظم کی غداری، اور فوج کی کمی جیسے عوامل اصل وجہ تھے، مگر تاریخ کو مسخ کر کے دینی طبقے کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔

اسی طرح، آج کے تجزیہ کار بھی بغیر سوچے سمجھے ہر مسئلے کا الزام اپنی پسند کے مخالفین پر ڈال دیتے ہیں۔
اگر سائنس میں ترقی نہیں ہو رہی تو اس کا الزام علماء پر عائد کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ ان کا میدان نہیں۔

ہر شعبے کی اپنی ذمہ داری

ہر طبقے اور شعبے کی اپنی اہمیت اور ذمہ داریاں ہیں:

  • علماء: دینی علوم اور فقہی مسائل پر غور کرنا ان کا کام ہے، سائنسی تحقیق نہیں۔
  • ڈاکٹرز: علاج کرنا ان کا فرض ہے، کپڑے سینا نہیں۔
  • کسان: کھیتوں میں محنت کرتے ہیں، پل اور سڑکیں بنانا ان کا شعبہ نہیں۔
  • سائنسدان: ایجادات اور تحقیق میں مصروف ہیں، ان پر مذہبی مسائل حل کرنے کی ذمہ داری نہیں۔

جب ہر شعبہ اپنی جگہ ٹھیک سے کام کرے تو ملک ترقی کرتا ہے۔
لیکن اگر ایک شعبے کی خامیوں کا الزام دوسروں پر ڈال دیا جائے تو مسائل بڑھ جاتے ہیں۔

ریاست کی ذمہ داری

ریاست کے تمام شعبے باہم مربوط ہوتے ہیں اور حکومت کا کام ان سب کو متوازن طریقے سے چلانا ہوتا ہے:

  • صحت، تعلیم، اور زراعت کی بہتری پر کام کرنا۔
  • قانون نافذ کرنا اور عوام کی اخلاقی حالت بہتر بنانا۔
  • اگر کوئی تہوار نقصان پہنچا رہا ہو تو اس پر پابندی لگانا۔
  • غربت کا خاتمہ اور عوام کے مسائل حل کرنا۔

ریاست کو تمام شعبوں پر ایک ساتھ نظر رکھنی پڑتی ہے۔
یہ نہیں ہو سکتا کہ صرف ایک مسئلے کو حل کیا جائے اور باقی شعبے نظرانداز ہو جائیں۔

نتیجہ

ہمیں معاملات کو غیرضروری طور پر خلط ملط نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر دلائل تراشنے چاہئیں۔
ہر شعبہ اپنے مقام پر اہم ہے اور کسی بھی معاشرے کے استحکام اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہر طبقہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1