بیٹی یا بیٹے کی دعا کرنے کے شرعی احکام

سوال

کیا اللہ تعالیٰ سے بیٹی کا سوال کرنا مناسب نہیں؟ ایک عالم نے کہا کہ اللہ کی رضا پر راضی رہنا چاہیے اور بیٹے یا بیٹی کی دعا کرنا خاص طور پر بیٹی کا سوال کرنا درست نہیں۔ اس حوالے سے رہنمائی درکار ہے۔

جواب از فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ بات غیر ضروری اور کسی خاص فہم یا ذاتی رائے پر مبنی معلوم ہوتی ہے۔ شریعت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بیٹی کا سوال نہ کیا جائے۔ درج ذیل نکات اس بات کی وضاحت کرتے ہیں:

1. اللہ کی رضا پر راضی رہنا

  • ضرورت: مسلمان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اللہ کی رضا اور قضا پر راضی رہے، خواہ اللہ تعالیٰ اسے بیٹا عطا کرے یا بیٹی۔
  • دعا کی اجازت: انسان اپنی ضرورت اور خواہشات اللہ سے مانگ سکتا ہے، خواہ وہ بیٹے کے لیے ہو یا بیٹی کے لیے۔

2. قرآن کی رہنمائی

اللہ تعالیٰ سے اولاد کی دعا کرنے کی کئی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں:

  • حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا:
    وَزَكَرِيَّاۤ اِذۡ نَادٰى رَبَّهٗ رَبِّ لَا تَذَرۡنِىۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَيۡرُ الۡوٰرِثِيۡنَ‌
    [سورة الانبیاء: 89]
    ’’اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا، اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب وارثوں سے بہتر ہے۔‘‘
  • حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا:
    رَبِّ هَبۡ لِىۡ مِنَ الصّٰلِحِيۡنَ
    [سورة الصافات: 100]
    ’’اے میرے رب! مجھے نیک اولاد عطا فرما۔‘‘

3. بیٹی کا سوال کرنا

  • شریعت میں اللہ تعالیٰ سے بیٹی مانگنے کی ممانعت نہیں ہے۔
  • اولاد کا سوال اللہ تعالیٰ سے ایک جائز دعا ہے، خواہ وہ بیٹا ہو یا بیٹی۔
  • اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے اپنی خواہش کا اظہار دعا کے ذریعے کرنا نہ صرف جائز بلکہ اللہ کی رحمت کا دروازہ کھولتا ہے۔

خلاصہ:

  • بیٹے یا بیٹی کی دعا کرنا جائز ہے، اور شریعت میں اس کی کوئی ممانعت نہیں۔
  • اللہ کی رضا پر راضی رہنا ضروری ہے، لیکن اپنی ضرورت کے لیے دعا کرنا بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے۔
  • اس بات کی کوئی شرعی بنیاد نہیں کہ خاص طور پر بیٹی کا سوال نہ کیا جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے