سوال: بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟
جواب: شریعت میں بیوی کے حقوق و فرائض کی تعین نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے عرف عام کی طرف رجوع کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو
صرف یہ ہے:
«وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ» [4-النساء: 19]
”ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو“
نیز ارشاد ہے:
«وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ» [2-البقرة: 228]
”اور معروف کے مطابق ان (عورتوں) کے لیے اسی طرح حق ہے۔“
عرف عام میں بیوی کے جو حقوق ہیں وہی مرد پر واجب ہوں گے، اور جو حقوق عرف عام سے ثابت نہیں ہیں وہ مرد پر واجب نہیں ہوں گے، الا یہ کہ عرف عام شریعت کے مخالف ہو کیونکہ عرف عام میں بھی تریعتت معتبر ہو گی، مثلاً اگر عرف عام میں عورت کا یہ حق ہو کہ مرد اپنے گھر والوں کو نماز اور حسن خلق کا حکم نہیں دے سکتا تو یہ عرف باطل ہوگا، لیکن جب عرف عام شریعت کے مخالف نہ ہو تو مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے حقوق کے معاملے کو عرف عام کی طرف ہی رد کیا ہے۔
لہٰذا گھروں کے سربراہوں پر واجب ہے کہ اللہ نے ان کو جن کا ذمہ دار بنایا ہے وہ ان کے معاملے میں اللہ سے ڈریں اور ان کو آزاد نہ چھوڑ دیں۔ ہم
کئی آدمیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی مذکر و مؤنث اولاد کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں، وہ ان کے متعلق دریافت تک نہیں کرتے کہ کون گھر میں موجود ہے اور کون موجود نہیں ہے، اور نہ ہی وہ اپنی اولاد کے ساتھ مجلس کرتے ہیں۔ ایک آدمی کو اپنے بیوی بچوں سے میل ملاقات کے بغیر مہینہ مہینہ اور دو دو مہینے گزر جاتے ہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ بلکہ ہم اپنے بھائیوں کو نصحیت کرتے ہیں کہ وہ گھرانے کی شیرازہ بندی اور اس کے اتحاد و اجتماع کے حریص بن جائیں اور اس کے لیے وہ صبح و شام کا کھانا ا کٹھے کھایا کریں۔ لیکن عورت اجنبی مردوں کے ساتھ میل ملاقات نہ رکھے۔ اب لوگوں کے ہاں یہ ایک منکر خلاف شریعت رواج چل پڑا ہے کہ غیر محرم مرد اور عورتیں اجتماعی طور پر مل جل کر کھانا کھاتے ہیں، ہم اللہ سے سب کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔ [محمد بن صالح الثعیميں رحمہ اللہ]
جواب: شریعت میں بیوی کے حقوق و فرائض کی تعین نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے عرف عام کی طرف رجوع کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو
صرف یہ ہے:
«وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ» [4-النساء: 19]
”ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو“
نیز ارشاد ہے:
«وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ» [2-البقرة: 228]
”اور معروف کے مطابق ان (عورتوں) کے لیے اسی طرح حق ہے۔“
عرف عام میں بیوی کے جو حقوق ہیں وہی مرد پر واجب ہوں گے، اور جو حقوق عرف عام سے ثابت نہیں ہیں وہ مرد پر واجب نہیں ہوں گے، الا یہ کہ عرف عام شریعت کے مخالف ہو کیونکہ عرف عام میں بھی تریعتت معتبر ہو گی، مثلاً اگر عرف عام میں عورت کا یہ حق ہو کہ مرد اپنے گھر والوں کو نماز اور حسن خلق کا حکم نہیں دے سکتا تو یہ عرف باطل ہوگا، لیکن جب عرف عام شریعت کے مخالف نہ ہو تو مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے حقوق کے معاملے کو عرف عام کی طرف ہی رد کیا ہے۔
لہٰذا گھروں کے سربراہوں پر واجب ہے کہ اللہ نے ان کو جن کا ذمہ دار بنایا ہے وہ ان کے معاملے میں اللہ سے ڈریں اور ان کو آزاد نہ چھوڑ دیں۔ ہم
کئی آدمیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی مذکر و مؤنث اولاد کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں، وہ ان کے متعلق دریافت تک نہیں کرتے کہ کون گھر میں موجود ہے اور کون موجود نہیں ہے، اور نہ ہی وہ اپنی اولاد کے ساتھ مجلس کرتے ہیں۔ ایک آدمی کو اپنے بیوی بچوں سے میل ملاقات کے بغیر مہینہ مہینہ اور دو دو مہینے گزر جاتے ہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ بلکہ ہم اپنے بھائیوں کو نصحیت کرتے ہیں کہ وہ گھرانے کی شیرازہ بندی اور اس کے اتحاد و اجتماع کے حریص بن جائیں اور اس کے لیے وہ صبح و شام کا کھانا ا کٹھے کھایا کریں۔ لیکن عورت اجنبی مردوں کے ساتھ میل ملاقات نہ رکھے۔ اب لوگوں کے ہاں یہ ایک منکر خلاف شریعت رواج چل پڑا ہے کہ غیر محرم مرد اور عورتیں اجتماعی طور پر مل جل کر کھانا کھاتے ہیں، ہم اللہ سے سب کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔ [محمد بن صالح الثعیميں رحمہ اللہ]