سوال: میری ایک بیوی ہے جو میرے والدین کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں ہوتی، حالانکہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز بھی پیش نہیں آئی جو ان کی دوری کا باعث بن سکے، کیا میری بیوی کا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
جواب: بیوی کے لائق یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر والوں یعنی اس کی ماں، باپ، بھائی اور قریبیوں کے ساتھ نرمی کرے اور ان کے ساتھ قابل ستائیش زندگی بسر کرے، اس میں اس کی اور اس کے خاوند کی سعادت ہے۔ اور بعض دہ چیزیں جن کو وہ ناپسند کرتی ہے ان پر وہ صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھے۔ جب اس کو اس قسم کی کسی ناگوار بات کاسامنا ہو تو وہ صبر کو لازم پکڑے اور اپنے خاوند کے خاندان اور گھر والوں کو ناراض نہ کرے، کیونکہ اس بار بار کی مخالفت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی اس کے خاوند کو طلاق دینے پر آمادہ کر سکتی ہے، اور اس طرح شادی کا بندھن ٹوٹ جائے گا۔ ظاہر ہے ان کے بچے بھی ہوں گے تو ذرا تصور کیجیے کہ ان کی جدائی کے بعد بچوں کا کیا حال ہوگا؟ بلاشبہ وہ اپنی والدہ کے اپنے خاوند اور ان کے والد سے جدا ہونے کے بعد اچھی حالت میں نہیں ہوں گے، لہٰذا یہ عورت اپنا محاسبہ کرے اور رشد و بھلائی کی طرف لوٹ آئے۔ مگر جب اختلاف حد سے بڑھ جائے تو اس کے فیصلے کے لیے قاضی کی طرف رجوع کیا جائے گا کہ کیا قاضی اس عورت کو مجبور کرے گا کہ وہ خاوند کے گھر والوں کے ساتھ ہی زندگی بسر کرے یا وہ ایسا نہیں کرے؟ یا اس معاملہ میں کوئی اور تفصیل ہو تو قاضی ہی اس کی وضاحت کرے گا، بہرحال میں عمومی طور پر اس عورت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اوپر اجر کرے تاکہ وہ زندگی کے معاملات میں اپنے خاوند کی معاون بن سکے۔ [محمد بن صالح العثيمين رحمه الله]
جواب: بیوی کے لائق یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر والوں یعنی اس کی ماں، باپ، بھائی اور قریبیوں کے ساتھ نرمی کرے اور ان کے ساتھ قابل ستائیش زندگی بسر کرے، اس میں اس کی اور اس کے خاوند کی سعادت ہے۔ اور بعض دہ چیزیں جن کو وہ ناپسند کرتی ہے ان پر وہ صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھے۔ جب اس کو اس قسم کی کسی ناگوار بات کاسامنا ہو تو وہ صبر کو لازم پکڑے اور اپنے خاوند کے خاندان اور گھر والوں کو ناراض نہ کرے، کیونکہ اس بار بار کی مخالفت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی اس کے خاوند کو طلاق دینے پر آمادہ کر سکتی ہے، اور اس طرح شادی کا بندھن ٹوٹ جائے گا۔ ظاہر ہے ان کے بچے بھی ہوں گے تو ذرا تصور کیجیے کہ ان کی جدائی کے بعد بچوں کا کیا حال ہوگا؟ بلاشبہ وہ اپنی والدہ کے اپنے خاوند اور ان کے والد سے جدا ہونے کے بعد اچھی حالت میں نہیں ہوں گے، لہٰذا یہ عورت اپنا محاسبہ کرے اور رشد و بھلائی کی طرف لوٹ آئے۔ مگر جب اختلاف حد سے بڑھ جائے تو اس کے فیصلے کے لیے قاضی کی طرف رجوع کیا جائے گا کہ کیا قاضی اس عورت کو مجبور کرے گا کہ وہ خاوند کے گھر والوں کے ساتھ ہی زندگی بسر کرے یا وہ ایسا نہیں کرے؟ یا اس معاملہ میں کوئی اور تفصیل ہو تو قاضی ہی اس کی وضاحت کرے گا، بہرحال میں عمومی طور پر اس عورت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اوپر اجر کرے تاکہ وہ زندگی کے معاملات میں اپنے خاوند کی معاون بن سکے۔ [محمد بن صالح العثيمين رحمه الله]