بیوی خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب رضی اللہ عنہا نے جب اپنے زیور کی زکوٰۃ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خود کو اور اپنی اولاد کو زکوٰۃ کا زیادہ مستحق قرار دیا۔ اس پر زینب رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صدق ابن مسعود زوجك وولدك أحق من تصدقت به عليهم
”ابن مسعود نے ٹھیک کہا ہے ، تیرا شوہر اور اس کی اولا د تیرے صدقے کے زیادہ مستحق ہیں ۔“
[بخاري: 1462 ، كتاب الزكاة: باب الزكاة على الأقارب]
(جمہور) بیوی خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے۔
(شافعیہ ، مالکیہ ، حنفیہ ، حنابلہ ) بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ نہیں دے سکتی۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کا بھی یہی موقف ہے۔
[نيل الأوطار: 140/3 ، شرح المهذب: 138/6 ، الأم: 69/2 ، المغنى: 100/4 ، المبسوط: 11/3]
◈ علماء نے اس مسئلے میں بھی اختلاف کیا ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو زکوٰۃ دے سکتا ہے یا نہیں؟ لیکن راجح بات یہی ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا۔
(ابن منذرؒ) علماء نے اجماع کیا ہے کہ آدمی زکوٰۃ کے مال سے اپنی بیوی کو کچھ نہیں دے سکتا کیونکہ اس کا نفقہ و خرچہ اس پر واجب ہے۔
[نيل الأوطار: 141/3]
(امیر صنعانیؒ) علماء نے اتفاق کیا ہے کہ فرض زکوٰۃ اپنی بیوی کو دینا جائز نہیں ۔
[سبل السلام: 841/2]
واضح رہے کہ خاوند کو بھی صرف اسی صورت میں بیوی زکوٰۃ دے سکتی ہے جب وہ آٹھوں مصارف میں سے کسی مصرف میں شامل ہو ورنہ نہیں۔