بیرون وطن چہرہ کھلا رکھنے کا حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

کیا سعودی عرب سے باہر سفر کی صورت میں میرے لئے چہرہ ننگا کرنا اور پردہ اتار پھینکنا جائز ہے ؟ کیوں کہ اس وقت ہم اپنے وطن سے دور ہوتے ہیں اور کوئی ہمیں پہچانتا بھی تو نہیں، میری والدہ میرے والد کو اس بات پر آمادہ کرتی رہتی ہے کہ وہ مجھے چہرہ ننگا رکھنے پر مجبور کرے اور اس لئے بھی کہ جب میں اپنا چہرہ چھپا کر رکھتی ہوں تو وہ میرے بارے میں گمان کرتے ہیں کہ شاید میں لوگوں کی طرف اپنی نظر کو پھیرتی ہوں (چہرہ ننگا ہونے کی صورت میں وہ میری نظروں کی حفاظت کر سکیں گے )۔

جواب :

آپ یا کسی بھی مسلمان خاتون کے لئے بلاد کفر میں بھی اسی طرح بے پردہ ہونا جائز نہیں ہے جس طرح کہ اسلامی ملکوں میں جائز نہیں ہے۔ اجنبی مردوں سے پردہ کرنا بہرحال واجب ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر بلکہ کافروں سے تو زیادہ شدت کے ساتھ پردہ کرنا چاہئیے کیونکہ ان کا تو کوئی ایمان ہی نہیں ہے جو انہیں محرمات شرعیہ سے روک سکے۔ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کے ارتکاب کے لئے والدین یا غیر والدین، کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ نہ آپ کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے، ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ [33-الأحزاب:53]
”اور جب تم ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی کامل پاکیزگی ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح فرما دیا ہے کہ عورتوں کا غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا سب کے دلوں کے لئے باعث طہارت و پاکیزگی ہے۔
اسی طرح سورۂ نور میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ [24-النور:31]
” (اے نبی ! ) ایمان والی عورتوں سے فرما دیجئیے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں کھلا رہتا ہو اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند، باپ، خسر، اپنے بیٹوں، خاوند کے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی، غلاموں کے سوا، نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کو جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (اس طرح زمین پر) نہ ماریں کہ (جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے۔ اے اہل ایمان ! سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔“
اور چہرہ تو سب سے بڑی زینت ہے۔
( سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے