سوال:
ایک فیملی پاکستان سے انگلینڈ منتقل ہوئی ہے اور وہاں قسطوں پر گھر خریدنا چاہتی ہے۔ قیمت طے کرنے کے بعد قسطوں پر چیز مل جاتی ہے، لیکن اگر قسطیں دو سال میں مکمل نہ ہوں تو حکومت کی پالیسی کے مطابق ریٹ بڑھا دیا جاتا ہے، اور پھر اگلے دو سال اسی نئے ریٹ کے مطابق قسطیں ادا کرنا ہوتی ہیں۔ کیا یہ معاملہ شرعی لحاظ سے جائز ہے؟
جواب از فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
قسطوں پر خرید و فروخت کے حوالے سے دو رائے پائی جاتی ہیں، لیکن ہمارے علماء و مشایخ کے نزدیک قسطوں پر خریداری دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
◈ خرید و فروخت کے وقت قیمت طے شدہ ہو، یعنی کوئی ابہام نہ ہو۔
◈ قسط کی تاخیر پر جرمانہ یا اضافی چارجز ادا نہ کرنے پڑیں۔
اگر ان دو شرائط کا خیال رکھا جائے تو قسطوں پر خریداری جائز ہے، لیکن اگر ان شرائط کی خلاف ورزی ہو تو پھر یہ معاملہ ناجائز ہوگا۔
اوپر بیان کردہ صورت میں حکم:
بیان کردہ صورت میں دو سال بعد جو ریٹ بڑھا دیا جاتا ہے، وہ سود (ربا) کی ایک شکل ہے۔ قسطوں میں کسی بھی عذر کی بنا پر اضافہ کرنا یا تاخیر کی وجہ سے مزید ادائیگی کا مطالبہ کرنا شرعاً سود شمار ہوتا ہے۔
اسی طرح، بینک سے قسطوں پر خرید و فروخت میں بھی سود سے بچنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا، جو کہ اس معاملے کو مزید مشتبہ بنا دیتا ہے۔
بیرون ملک رہائش اور سودی معاملات میں مجبوریاں؟
بیرون ملک مقیم افراد اکثر یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ یہاں ہمارے پاس کوئی اور متبادل نہیں، یا بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ ہمارے علماء کرام نے بھی اضطراری حالت کی بنا پر اسے جائز قرار دیا ہے۔
حالانکہ یہ بالکل درست موقف نہیں ہے، کیونکہ کئی تجربہ کار افراد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بیرون ملک سودی معاملات سے بچنا ممکن ہوتا ہے، اور ایسی کوئی حقیقی مجبوری نہیں ہوتی۔
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جب علماء کرام بیرون ملک سفر کرنے والوں کو پہلے سے خبردار کرتے ہیں کہ وہاں اسلامی احکامات پر عمل کرنا مشکل ہو سکتا ہے، تو جانے والے کہتے ہیں کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں، وہاں بہت سے مسلمان رہتے ہیں۔ لیکن جب وہاں پہنچ جاتے ہیں تو اضطراری کیفیت کا عذر پیش کرکے رخصت تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں!
نتیجہ:
◈ اگر خرید و فروخت کے وقت قیمت فکس ہو اور کسی بھی عذر پر اضافہ یا جرمانہ نہ ہو، تو قسطوں کا کاروبار جائز ہے۔
◈ لیکن اوپر بیان کردہ صورت میں، دو سال بعد ریٹ بڑھا دیا جانا سود کی ایک شکل ہے، جو ناجائز ہے۔
◈ بیرون ملک بھی سودی معاملات سے بچنا ممکن ہوتا ہے، لہٰذا کسی بھی اضطراری کیفیت کو بنیاد بنا کر سودی لین دین کو جائز قرار دینا درست نہیں۔
واللہ اعلم