بیت الخلاء میں مصحف یا دینی کتب لے جانے کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ الدین الخالص، جلد 1، صفحہ 299

بیت الخلاء میں مصحف یا دینی کتاب لے جانا

سوال:

اگر کسی کے پاس مصحف شریف یا ایسی کتاب یا کاغذ ہو جس میں قرآنی آیات، احادیث یا اذکار درج ہوں، تو کیا وہ انہیں بیت الخلاء میں لے جا سکتا ہے؟

جواب:

اسلام میں قرآن و حدیث کے ادب اور تعظیم کا خاص حکم ہے۔ اس لیے کسی بھی ایسی چیز کی توہین سے اجتناب کرنا ضروری ہے جس میں اللہ کا کلام، نبی کریم ﷺ کے فرامین یا دیگر دینی الفاظ لکھے ہوں۔

مصحف یا دینی مواد کا ادب:

بہتر یہی ہے کہ بیت الخلاء میں جانے سے پہلے ان اشیاء کو کسی پاک جگہ پر رکھ دیا جائے۔

اگر کسی کاغذ پر آیات یا اذکار درج ہوں، تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔

اس مسئلے کی وضاحت کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ دین کے ان اصولوں میں شامل ہے جو عقل و فطرت سے واضح ہیں۔

نبی کریم ﷺ کا عمل:

امام ابو داؤد نے اپنی کتاب(1؍4) "باب الخاتم یکون فیہ ذکر اللہ تعالیٰ یدخل بہ الخلاء” میں نقل کیا ہے کہ:

حضرت انس ﷜ فرماتے ہیں کہ:
"نبی ﷺ جب بیت الخلاء میں جاتے تو اپنی انگوٹھی اتار دیتے تھے۔

(ابوداؤد 1؍4، المشکوٰۃ 1؍11، رقم : 343)

📌 اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن امام ترمذی نے اسے صحیح کہا ہے۔

فتاویٰ اللجنہ الدائمة کا فتویٰ:

فتاویٰ اللجنہ (4؍40) میں درج سوال و جواب:

اگر کوئی مصحف جیب میں رکھ کر بیت الخلاء میں داخل ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

مصحف کو جیب میں رکھنا جائز ہے، لیکن:

◈ مصحف کے ساتھ بیت الخلاء میں جانا جائز نہیں۔
◈ احترام کی خاطر، مصحف کو کسی محفوظ اور پاک جگہ پر رکھ دینا چاہیے۔
◈ اگر چوری کا اندیشہ ہو، تو مجبوری کے تحت مصحف ساتھ رکھنا درست ہے۔

بھول کر مصحف ساتھ لے جانا:

اگر کوئی شخص مصحف جیب میں رکھے ہو اور بیت الخلاء میں داخل ہو جائے، لیکن اُسے یاد نہ رہے کہ مصحف جیب میں ہے، تو کیا حکم ہے؟

اگر بھول چوک سے ایسا ہو جائے تو کوئی گناہ نہیں۔

نیت اور یادداشت کا اعتبار ہے۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1