موجودہ دور میں کچھ لوگ تجاہلِ عارفانہ اختیار کرتے ہوئے یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں بھینس کے حلال ہونے کا ذکر موجود نہیں، بلکہ یہ ہماری ”فقہ” ہے جس نے اسے حلال قرار دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تقلیدی فقہ کو حلال و حرام کا فیصلہ کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ) (النحل: 116)
"کسی چیز کو اپنی زبان سے جھوٹ بول کر حلال یا حرام نہ کہو تاکہ تم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھو۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہوتے۔”
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ (م 774ھ) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"ویدخل فی ھذا کلّ مبتدع، من ابتدع بدعۃ، لیس فیھا مستند شرعی، أو حلّل شیأا ممّا حرّم اللّٰہ، أو حرّم شیأا ممّا أباح اللّٰہ بمجرّد رأیہ وتشھیہ۔”
"ہر وہ شخص اس حکم میں شامل ہے جس نے بدعت کا آغاز کیا، جبکہ اس کے پاس اس بدعت کے لیے کوئی شرعی دلیل نہ تھی، یا جس نے محض اپنی رائے اور ذاتی خواہش سے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام اور حرام کردہ چیزوں کو حلال قرار دیا۔” (تفسیر ابن کثیر: 4/75)
اس سے ثابت ہوا کہ حلال اور حرام کا حکم صرف وہی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مقرر کیا ہے۔
یہ بات بھی واضح رہے کہ نبی اکرم ﷺ مکمل دین لے کر آئے ہیں۔ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے حلال و حرام کے بارے میں جامع اصول بیان کر دیے ہیں، جن کی روشنی میں ہم کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔
دلیل نمبر 1:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْأَنْعَامِ) (المائدۃ: 1)
"تمہارے لیے مویشی چوپائے حلال کیے گئے ہیں۔”
ان جانوروں میں سے جو حرام ہیں، وہ دوسرے دلائل کی بنیاد پر مستثنیٰ ہیں، جیسا کہ اس آیت میں بھی اشارہ موجود ہے۔
امام قتادہ بن دعامہ تابعی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
"الأنعام کلّھا۔”
"تمام کے تمام مویشی (حلال کر دیے گئے ہیں)۔” (تفسیر طبری: 9/455، وسندہ صحیح)
اہل سنت کے امام ابنِ جریر طبری رحمہ اللہ نے اسی قول کو منتخب کیا ہے۔
ابنِ عطیہ کہتے ہیں:
"ھذا قول حسن۔”
"یہ قول بہت عمدہ ہے۔” (تفسیر الشوکانی: 2/4)
مفتی محمد شفیع دیوبندی اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"لفظ ‘أنعام’، نعم کی جمع ہے، یعنی پالتو جانور جیسے اونٹ، گائے، بھینس، بکری وغیرہ، جن کی آٹھ اقسام سورہ انعام میں بیان کی گئی ہیں۔ ان کو ‘انعام’ کہا جاتا ہے۔ ‘بہیمۃ’ کا لفظ عام تھا، ‘انعام’ کے لفظ نے اس کو خاص کر دیا۔ اس آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ گھریلو جانوروں کی آٹھ اقسام تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں۔ لفظ ‘عقود’ کے تحت یہ بات ابھی بیان ہوئی کہ تمام معاہدات شامل ہیں، ان میں سے ایک معاہدہ وہ بھی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے حلال و حرام کی پابندی کے متعلق لیا ہے۔ اس جملہ میں اس خاص معاہدہ کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اونٹ، بکری، گائے، بھینس وغیرہ کو حلال کر دیا ہے۔ انہیں شرعی طریقے سے ذبح کر کے کھایا جا سکتا ہے۔” (معارف القرآن از محمد شفیع دیوبندی: 3/13)
دلیل نمبر 2:
بھینس کے بارے میں شریعت نے کوئی واضح حکم نہیں دیا ہے اور اس کی حرمت کے بارے میں کوئی نص موجود نہیں، اس لیے اسے حلال سمجھا جائے گا کیونکہ:
ارشادِ باری تعالیٰ:
(قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہ، اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا) (الانعام: 145)
"کہہ دیجئے کہ مجھ پر نازل کی گئی وحی میں کسی کھانے والے پر مردار اور دمِ مسفوح (جو خون ذبح کے وقت بہتا ہے) کے علاوہ کوئی چیز حرام نہیں۔”
حافظ ابنِ رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"فھذا یدلّ علیٰ ما لم یوجد تحریمہ، فلیس بمحرّم۔”
"یہ آیت اس اصول کی دلیل ہے کہ (شریعت میں کھانے پینے اور پہننے کی) جس چیز کی حرمت کا ذکر نہ ہو، وہ حرام نہیں ہے۔” (جامع العلوم والحکم لابن رجب: ص 381)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
"کان أھل الجاھلیۃ یأکلون أشیاء ویترکون أشیاء تقذّرا، فبعث اللّٰہ تعالیٰ نبیّہ وأنزل کتابہ، وأحلّ حلالہ وحرّم حرامہ، فما أحلّ فھو حلال وما حرّم فھو حرام، وما سکت عنہ فھو معفوّ، وتلا: (قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا) الی آخر الآیۃ۔”
"اہلِ جاہلیت کچھ چیزیں کھاتے تھے اور کچھ کو ناپسند کرتے ہوئے چھوڑ دیتے تھے، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور اپنی کتاب نازل کی، اس نے جو چیز حلال قرار دی، وہ حلال ہے، اور جسے حرام قرار دیا، وہ حرام ہے، اور جس سے خاموشی اختیار کی، وہ معاف (حلال) ہے۔” (سنن ابی داود: 3800، وسندہ، صحیحٌ، وقال الحاکم (4/115): صحیح الاسناد)
حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں:
"والمقصود من سیاق ھذہ الآیۃ الکریمۃ الرّدّ علی المشرکین الّذین ابتدعوا ما ابتدعوہ من تحریم المحرّمات علی أنفسھم بآرائھم الفاسدۃ من البحیرۃ والسّائبۃ والوصیلۃ والحام ونحو ذلک، فأمر رسولہ أن یخبرھم أنّہ لا یجد فیما أوحاہ اللّٰہ الیہ أنّ ذلک محرّم، وانّما حرّم ما ذکر فی ھذہ الآیۃ من المیتۃ والدّم المسفوح ولحم الخنزیر وما أھلّ لغیر اللّٰہ بہ، وما عدا ذلک فلم یحرّم، وانّما ھو عفو مسکوت عنہ، فکیف تزعمون أنتم أنّہ حرام، ومن أین حرّمتموہ ولم یحرّمہ؟ وعلی ھذا فلا ینفی تحریم أشیاء أخر فیما بعد ھذا، کما جاء النّھی عن لحوم الحمر الأھلیّۃ ولحوم السّباع وکلّ ذی مخلب من الطّیر علی المشہور من مذاھب العلماء۔” (تفسیر ابن کثیر: 3/103-104)
"اس آیت کا مقصد مشرکین کا ردّ ہے، جنہوں نے اپنی فاسد آراء سے بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حام کو حرام قرار دینے کی بدعت جاری کی۔ اللہ نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ انہیں بتائیں کہ اللہ کی وحی میں ان چیزوں کی حرمت نہیں ہے، اس آیت میں مذکورہ مردار، دمِ مسفوح، خنزیر کا گوشت، اور وہ چیز جو غیر اللہ کی طرف منسوب کی جائے، حرام ہیں۔ اس کے علاوہ باقی چیزیں حرام نہیں بلکہ معاف ہیں اور ان پر سکوت اختیار کیا گیا ہے۔”
مزید دلیل:
ارشادِ باری تعالیٰ:
(وَمَا لَکُمْ اَلَّا تَاْکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَّا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ اِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ اِلَیْہِ) (الانعام: 119)
"اور تمہیں کیا ہے کہ تم اس چیز کو نہیں کھاتے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے، حالانکہ اس نے تم پر حرام چیزوں کی تفصیل بیان کر دی ہے، سوائے ان کے جن کے کھانے پر تم مجبور ہو جاؤ۔”
حافظ ابنِ رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"فعنفھم علی ترک الأکل ممّا ذکر اسم اللّٰہ علیہ معلّلا بأنّہ قد بیّن لھم الحرام، وھذا لیس منہ، فدلّ علی أنّ الأشیاء علی الاباحۃ والّا لما ألحق اللّوم بمن امتنع من الأکل ممّا لم ینصّ علی حلّہ بمجرأد کونہ لم ینصّ علی تحریمہ۔” (جامع العلوم والحکم لابن رجب: ص 381)
"اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ڈانٹا جو ایسی چیزیں نہیں کھاتے جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، اور وجہ یہ بیان کی کہ حرام چیزیں تو واضح طور پر بتا دی گئی ہیں، اور یہ ان میں شامل نہیں ہیں۔ اس آیت سے یہ اصول ثابت ہوتا ہے کہ چیزوں میں اصل میں اباحت ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ملامت کیوں کی ہوتی جو ایسی چیز کے کھانے سے رک گئے جس کی حلت یا حرمت کے بارے میں کوئی نص نہیں تھی۔”
حدیث سے دلیل:
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"انّ أعظم المسلمین جرما من سأل عن شیء لم یحرّم، فحرّم من أجل مسألتہ۔”
"مسلمانوں میں سب سے بڑا گناہ گار وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا جو حرام نہیں تھی اور وہ اس کے سوال کرنے کی وجہ سے حرام ہو گئی۔” (صحیح بخاری: 2/1082، ح: 7289، صحیح مسلم: 2/262، ح: 2358)
دلیل نمبر 3:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"کلّ ذی ناب من السّباع، فأکلہ حرام۔”
"ہر ایسا درندہ جس کے نوک دار کچلی والے دانت ہوں، اس کا کھانا حرام ہے۔” (صحیح مسلم: 2/147، ح: 1933)
بھینس اس اصول کے تحت حرام قرار نہیں دی جا سکتی، کیونکہ یہ نوک دار دانت والے درندوں میں شامل نہیں ہے۔ اس کی حرمت پر کوئی دلیل بھی موجود نہیں، لہٰذا یہ حلال ہے۔
دلیل نمبر 4:
بھینس کے حلال ہونے پر اجماع و اتفاق پایا جاتا ہے۔ کسی نے بھی اسے حرام قرار نہیں دیا، اور یہ ایک مضبوط دلیل ہے کیونکہ اجماعِ امت شریعت کی دلائل میں سے ایک ہے۔
امام ابن المنذر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وأجمعوا علی أنّ حکم الجوامیس حکم البقر۔”
"تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔” (الاجماع لابن المنذر: 47)
حافظ ابنِ قدامہ المقدسی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
"لا خلاف فی ھذا نعلمہ، وقال ابن المنذر: أجمع کلّ من یحفظ عنہ من أھل العلم علی ھذا، ولأنّ الجوامیس من أنواع البقر۔۔۔”
"ہمیں اس بارے میں کوئی اختلاف معلوم نہیں، اور ابن المنذر نے اہل علم کا اس پر اجماع نقل کیا ہے، نیز بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔” (المغنی لابن قدامہ: 2/594)
حافظ ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"الجوامیس بمنزلۃ البقر، حکی ابن المنذر فیہ الاجماع۔”
"بھینس گائے کی مانند ہے، اس پر ابن المنذر نے اجماع بیان کیا ہے۔” (مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 25/37)
امام حسن بصری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے:
"الجوامیس بمنزلۃ البقر۔”
"بھینس گائے کی طرح ہی ہے۔” (مصنف ابن ابی شیبہ: 3/219، وسندہ، صحیحٌ)
حافظ ابنِ حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"الجوامیس صنف من البقر۔”
"بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔” (المحلّٰی لابن حزم: 6/2)
تنبیہ:
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن و حدیث سے بھینس کا حلال ہونا ثابت نہیں ہے، ان سے گزارش ہے کہ اوپر دیے گئے دلائل اور اجماعِ صحیح پر غور کریں۔ اور اگر وہ اپنے مزعوم امام، جن کی وہ تقلید کرتے ہیں، سے بھینس کے حلال ہونے کا صحیح سند کے ساتھ ثبوت پیش نہیں کر سکتے تو…
حاصلِ کلام:
بھینس شریعت کے اصول و قاعدہ کے مطابق حلال ہے۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حلال قرار نہیں دیا، وہ دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھتا ہے۔