بڑی عمر میں عقیقہ نصوص شرعیہ اور فہم سلف کی روشنی میں
تحریر: حافظ ابویحییٰ نورپوری

’’ ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی رکھا جاتا ہے۔ ساتویں دن اس کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے، اس کے سر کو مونڈھا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔“ [مسند الإمام أحمد : 22,18,17,12,8,7/5، سنن أبى داؤد : 2838، سنن الترمذي: 1522، سنن النسائي: 4225، سنن ابن ماجه : 3165، المنتقي لابن الجارود: 910، و سندهٔ صحيح]

دیگر شرعی مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی مختلف دلائل کو دیکھنے کے بعد اہل علم کا تھوڑا سا اختلاف ہوا۔ وہ اس طرح کہ اسلاف امت میں سے بعض اہل علم نے کچھ روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے ساتویں دن کے ساتھ ساتھ چودھویں اور اکیسویں دن بھی عقیقے کی مشروعیت کا فتویٰ دیا۔ یہ الگ بحث ہے کہ چودھویں یا اکیسویں دن والی روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہو سکیں۔ لہٰذا صرف ساتویں دن عقیقے کی مشروعیت والا قول ہی راجح ہے۔

یہ اختلاف تو تھا محض ساتویں کے ساتھ ساتھ چودھویں اور اکیسویں دن کو ملانے کا، رہا ساتویں دن سے پہلے یا اکیسویں دن کے بعد عقیقہ کرنا تو یہ اسلاف امت، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے قطعاً ثابت نہیں۔ ہمارے علم کے مطابق خیرالقرون، بلکہ اس کے بعد بھی پانچویں صدی ہجری کے آغاز تک کوئی اہل علم چودھویں اور اکیسویں دن کے علاوہ ساتویں دن سے پہلے یا بعد عقیقے کا قائل و فاعل نہیں تھا۔

پانچویں صدی ہجری میں ظاہری نظریے کے حامل بعض اہل علم نے عقیقے کی احادیث کے ظاہری الفاظ سے اس کی فرضیت کا حکم کشید کیا اور پھر اسی بنا پر فتویٰ دیا کہ عقیقہ چونکہ فرض ہے، لہٰذا بچہ ساتویں دن تک زندہ رہے یا نہ رہے، عقیقہ کرنا ہی پڑے گا، البتہ ساتویں دن سے پہلے عقیقہ نہیں کیا جا سکتا، اگر ساتویں دن بچے کا عقیقہ نہیں کیا گیا تو زندگی میں جب بھی ممکن ہو، عقیقہ کیا جائے۔ علامہ ابن حزم ظاہری رحمہ اللہ (368-463 ھ) کا یہی فتویٰ تھا۔ [المحلي بالآثار: 234/6]

اسلاف امت کی تعلیمات کے خلاف یہ ایک شاذ قول تھا۔ جب یہ فتویٰ دیا گیا تو اسی دور کے محدث الاندلس، علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368-463 ھ) نے سخت الفاظ میں اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا :
وأجاز بعض من شذ أن يعن الكبير عن نفسه .
’’ بعض شاذ لوگوں نے اس بات کو جائز قرار دیا ہے کہ بالغ شخص اپنا عقیقہ خود کر لے۔“ [الاستذكار : 318/5]

بعض جید اور قابل قدر اہل علم کا رجحان بھی اس طرف ہے کہ بڑی عمر کا شخص بھی عقیقہ کر سکتا ہے۔ انہوں نے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کے اس فتوے کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہوئے کہا ہے : ’’ اس قول کا کوئی بھی مخالف نہیں، بلکہ ابن القیم وغیرہ اس کے مؤیدین میں سے ہیں۔“ [ماهنامه ضرب حق، شماره 11، صں 42]

ان کی اطلاع کے لیے مؤدبانہ عرض ہے کہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ تو ابن حزم رحمہ اللہ سے تین صدی بعد آئے ہیں۔ ان کی طرف سے ابن حزم رحمہ اللہ کی موافقت کوئی فائدہ نہیں دے گی، کیونکہ ان سے تین صدیاں پہلے ابن حزم رحمہ اللہ کے ہم عصر، ہم علاقہ اور ان سے سات سال بعد دنیا سے کوچ کرنے والے عالم، علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے اس فتوے کو ایک شاذ قول قرار دے کر رد کر دیا تھا اور حدیثی دلائل (جن کو ہم بعد میں ذکر بھی کریں گے) دیتے ہوئے فرمایا تھا :
وذلك كله سواء دليل على أن العقيقة عن الغلام، لا عن الكبير.
’’ ان سب احادیث سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ بچے ہی کا ہو گا، بڑے کا نہیں۔“ [الاستذكار : 318/5]

دوسری بات یہ ہے کہ شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ سے موافقت نہیں کی بلکہ جس طرح ابن حزم رحمہ اللہ نے ایک شاذ اجتہاد کے ذریعے ساتویں دن کے بعد پوری عمر عقیقے کا شاذ فتویٰ دیا جس میں ان کا کوئی سلف نہ تھا، اسی طرح ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنے شاذ اجتہاد کے ذریعے ساتویں دن سے پہلے بھی عقیقہ کرنے کا شاذ فتویٰ جاری کر دیا جس میں ان کا بھی کوئی سلف نہ تھا۔ دونوں اہل علم میں فرق صرف یہ ہوا کہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ساتویں دن کے بعد پوری عمر کے لیے مدت عقیقہ میں توسیع کی اور ابن القیم رحمہ اللہ نے ساتویں دن سے پہلے بھی اس کی رخصت دے دی اور ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہوئی کہ عقیقے کے مسئلے میں صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا دامن ان میں سے کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں رہا۔

ہمارے قابل قدر اہل علم نے ابن حزم رحمہ اللہ کے قول کو صحیح قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے : ’’ اس قول کے صحیح ہونے پر (ہمارے علم کے مطابق) اجماع ہے۔“ [ماهنامه ضرب حق، شماره 11، ص 42]

? اجماع کا یہ دعویٰ بہت عجیب ہے۔ ابن حزم رحمہ اللہ کے معاصرعلامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے مذکورہ صریح فتوے کے بعد اس دعوے کی کوئی گنجائش نہیں۔

◈ ابن حزم کے ایک اور ہم عصر و ہم علاقہ عالم، شارح بخاری، علامہ ابن بطال رحمها اللہ کا یہ قول سونے پر سہاگہ ہے،
وہ لکھتے ہیں :
لا يعق عن الكبير، وعلى هذا أئمة الفتوى بالأمصار.
’’ بڑے کی طرف سے عقیقہ نہیں کیا جا سکتا۔ تمام علاقوں کے مفتی ائمہ کا یہی مذہب ہے۔“ [شرح صحيح البخاري:375/5]

◈ اس کے بعد نویں صدی ہجری میں علامہ عینی حنفی نے بھی بڑے کی طرف سے عقیقہ نہ ہونے کو تمام ائمہ فتویٰ کا مذہب قرار دیا۔ [عمدة القاري شرح صحيح البخاري : 21 /86]

◈ پھر بارہویں صدی ہجری میں شیخ عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ نے لکھا :
العقيقه عن الكبير، ما علمت له أصلا
’’ بڑی عمر کے شخص کی طرف سے عقیقے کی کوئی دلیل میرے علم میں نہیں۔“ [الدرر السنية فى الأجوبة النجدية : 410/5]

◈ پھر تیرہویں صدی ہجری میں علامہ محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ (م : 1250 ھ) نے لکھا :
إن وقت العقيقة سابع الولادة، وأنها تفوت بعده.
’’ بلاشبہ عقیقے کا وقت ولادت کا ساتواں دن ہے، اس کے بعد اس کا وقت نکل جاتا ہے۔“ [نيل الاوطار: 157/5]

◈ پھر چودہویں صدی ہجری میں علامہ شرف الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ (م : 1329 ھ) نے لکھا :
إن وقت العقيقة سابع الولادة، وأنها لا تشرع قبله ولا بعدہ.
’’ عقیقے کا وقت ولادت کا ساتواں دن ہی ہے۔ اس سے پہلے یا بعد میں عقیقہ کرنا مشروع نہیں۔“ [عون المعبود شرح سنن أبى داؤد : 28/8]

◈ پھر اسی صدی میں علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ (م : 1353 ھ) نے بھی لکھا کہ :
والظاهر أن العقيقة مؤقتة باليوم السابع
’’ راجح بات یہی ہے کہ عقیقہ کے لیے صرف ساتواں دن مقرر ہے۔“ [تحفة الاحوذي : 98/5]

? یعنی حافظ ابن حزم رحمہ اللہ سے پہلے بھی کوئی اہل علم بڑی عمر میں عقیقے کے جواز کا فتویٰ نہیں دیتا تھا اور پھر ان کے دور سے لے کر آج تک اہل علم دلائل کے ساتھ بڑی عمر میں عقیقے کو ناجائز قرار دیتے رہے اور عقیقے کو بچے کے ساتھ خاص سمجھتے رہے۔

? اس بحث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ابن حزم رحمہ اللہ سے پہلے تک اہل علم کا اس بات پر اجماع رہا کہ عقیقہ صرف بچے کا ہو گا۔ انہوں نے اس اجماع کے خلاف جو شاذ فتویٰ دیا، اس کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ اہل علم کے نزدیک اجماعی مسائل میں ابن حزم رحمہ اللہ کے ایسے شاذ نظریات سے اجماع کی حیثیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہماری اس بات کی تائید کے لیے ملاحظہ فرمائیں :

◈ علامہ احمد بن عبدالرحیم بن حسین المعروف بہ ابن العراقی رحمہ اللہ (م : 826 ھ) لکھتے ہیں :
ومن تبرع بصدقة عن حمل رجاء حفظه وسلامته، فليس عليه فيه بأس، وقد نقل الاتفاق على عدم الوجوب قبل مخالفة ابن حزم . . . . . . ثم قال والدي رحمه الله : ومع كون ابن حزم قد خالف الإجماع فى وجوبها على الجنين فقد تناقض كلامهٔ . . . . . .
’’ جو شخص حفاظت اور سلامتی کی امید سے پیٹ میں موجود بچے کی طرف سے نفلی طور پر صدقہ فطر ادا کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی مخالفت سے پہلے حمل پر صدقہ فطر کے واجب نہ ہونے پر اتفاق منقول ہے . . . . . .۔ پھر میرے والد (حافظ عراقی رحمہ اللہ ) نے فرمایا : ابن حزم رحمہ اللہ نے جہاں حمل پر صدقہ فطر کے وجوب کا فتویٰ دے کر اجماع کی مخالفت کی ہے، وہاں ان کی کلام بھی متناقض ہے . . . . .۔“ [طرح التثريب فى شرح التقريب : 61/4]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) لکھتے ہیں :
ولم يعتبر ابن قدامة مخالفته هذه، فحكي الاجماع . . . . .
’’ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے ابن حزم رحمہ اللہ کی مخالفت کا کوئی اعتبار نہیں کیا اور اجماع ہی نقل کیا ہے۔“ [فتح الباري: 529/3]

مانعین کے دلائل

بڑی عمر میں عقیقہ کے غیر مشروع ہونے کے حوالے سے ایک حدیث تو اس مضمون کے شروع میں ذکر کی جا چکی ہے۔ اس میں عقیقے کا وقت چونکہ ساتواں دن بتایا گیا ہے، لہٰذا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عقیقہ چھوٹی عمر ہی میں کرنا چاہیے۔ مزید وضاحت اس حدیث کے بعد ملاحظہ فرمائیں :

❀ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من ولد له ولد، فأحب أن ينسك عنهٔ فلينسك، عن الغلام شاتان وعن الجارية شاة
’’ جس شخص کے ہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہے تو کر لے۔ بچے کی طرف سے دو بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری۔“ [سنن ابي داود : 2842، السنن الكبري للبيهقي : 505/9، وسندهٔ حسن]
? اس حدیث میں دو مقامات پر یہ بتایا گیا ہے کہ عقیقہ صرف بچے کا ہو گا۔ ’’ جس کے ہاں بچہ پیدا ہو۔“ کے الفاظ اس بات میں صریح ہیں کہ عقیقے کا وقت بچے کی پیدائش کے قریب قریب ہی ہے اور اس کی وضاحت ساتویں دن کے الفاظ کے ساتھ ہماری ذکر کردہ پہلی حدیث میں موجود ہے۔

① سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مع الغلام عقيقة، فأهريقوا عنه دما، وأميطوا عنه الأذى
’’ بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، لہٰذا تم اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس کی گندگی دور کرو (یعنی اس کے بال مونڈھو اور ختنہ کرو)۔“ [صحيح البخاري:5471]

? اسی حدیث کی بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں :
في الغلام عقيقة/عن الغلام عقيقة
’’بچے کی طرف سے عقیقہ ہے۔“ [مسند احمد: 16238، 16239، سنن النسائي : 4219، السنن الكبري للبيهقي : 298/9]

? اس حدیث میں بھی عقیقے کا تعلق بچے ہی کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور بچے ہی کی طرف سے جانور ذبح کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ یہ بچے کا معاملہ ہے :
باب إماتة الأذى عن الصبي فى العقيقة.
’’ عقیقے میں بچے کے بال مونڈھنے اور ختنہ کرنے کا بیان۔“

◈ شارح بخاری علامہ ابن بطال (م : 449 ھ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
وقوله صلى الله عليه وسلم : ”مع الغلام عقيقتهٔ“ حجة لقول مالك انه لا يعق عن الكبير، وعلي هذا ائمة الفتوي بالامصار
’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان کہ بچے کے ساتھ عقیقہ ہے، امام مالک کے اس قول (؟) کی دلیل ہے کہ بڑے کی طرف سے عقیقہ نہیں ہو گا۔ اور اسی بات پر تمام علاقوں کے مفتی ائمہ دین قائم ہیں۔“ [شرح صحيح البخاري:375/5]

◈ علامہ بدر الدین عینی حنفی (م : 855 ھ) نے بھی اس حدیث سے یہی مسئلہ اخذ کیا ہے۔ [عمدة القاري شرح صحيح البخاري : 88/21]

② اس حدیث کے راوی صحابی سیدنا سلمان بن عامر ضبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
العقيقة مع الولد
’’ عقیقہ بچے کے ساتھ ہے۔“ [السنن الكبري للبيهقي : 298/9، وسندهٔ صحيح]

③ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے :
عن الغلام وعن الجارية شاة شاة .
’’ بچے اور بچی دونوں کی طرف سے عقیقے میں ایک ایک بکری ذبح کی جائے۔“ [مصنف ابن أبى شيبة : 114/5، وسنده صحيح]

④ ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ بن زبیر تابعی رحمہ اللہ کے بارے بیان کرتے ہیں :
إنه كان يعق عن الغلام والجارية شاة شاة .
’’ آپ بچے اور بچی کی طرف سے ایک ایک بکری عقیقہ کرتے تھے۔“ [ايضا، وسندۂ صحيح]

⑤ امام زہری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے :
يعق عن الغلام والجارية شاة.
’’ بچے اور بچی کی طرف سے ایک ایک بکری عقیقہ کر دی جائے تو کافی ہے۔“ [ايضا: 115/5، و سندهٔ صحيح]

⑥ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں :
على الغلام شاتان، وعلٰي الجارية شاة .
’’ بچے پر دو بکریاں اور بچی پر ایک بکری عقیقہ کی جائے۔“ [مصنف عبدالرزاق : 328/4، و سندهٔ صحيح]

? ان سب احادیث اور تمام آثار میں غلام ”بچے“ اور جارية ”بچی“ کے الفاظ پکار پکار کر یہی کہہ رہے ہیں کہ عقیقہ صرف بچے کا ہو گا، بڑے کا نہیں کیونکہ غلام اور جارية کا لفظ چھوٹے بچے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ایک صحیح حدیث کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں : فإنه يغسل بول الجارية، ويرش من بول الغلام
’’ بلاشبہ بچی کے پیشاب کو دھویا جائے اور بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارے جائیں۔“ [سنن ابي داود : 376، سنن النسائي : 305، سنن ابن ماجه : 526، واللفظ لهٔ وسندهٔ حسن]

? جس طرح پیشاب پر چھینٹے مارنے کے حوالے سے غلام اور جارية یعنی بچے اور بچی میں فرق صرف چھوٹی عمر میں ہی ہوتا ہے، بڑی عمر میں یہ فرق ختم ہو جاتا ہے، اسی طرح عقیقے کے لیے بھی چھوٹی عمر (ساتواں دن) ہی ضروری ہے، بڑی عمر میں عقیقے کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔

مجوزین کے دلائل

اب قارئین کرام بڑی عمر میں عقیقے کے جواز کا فتویٰ دینے والے اہل علم کے دلائل ملاحظہ فرمائیں :

عن أنس أن النبى صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد ما بعثت نبيئا .
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔“ [المعجم الاوسط للطبراني:298/1، وسندۂ حسن]

? اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد مجوزین اہل علم نے لکھا ہے :

’’ اس حدیث سے یہ مسئلہ صاف ثابت ہے کہ اگر کسی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ نہ ہو سکے تو بعد میں جب موقع ملے (مثلا چالیس سال بعد) عقیقہ کرنا جائز ہے اور اسے ناجائز قرار دینا غلط ہے۔“ [ماهنامه ضرب حق، شماره 11، صں 41]

? آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عقیقہ کرنا ایک خاص عمل تھا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ بڑی عمر میں عقیقہ امت کے لیے جائز ہو اور پانچویں صدی ہجری کے آغاز تک کوئی ایک بھی اہل علم ایسا نہ ملے جو بڑی عمر میں عقیقے کا قائل و فاعل ہو اور پھر اگر پانچویں صدی میں کوئی ایسا فتویٰ دے بھی دے تو اہل علم اس کا سختی سے رد کرتے ہوئے اسے شذوذ قرار دیں ؟ مذکورہ حدیث میں یہ بات کہیں موجود نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیقہ ہوا ہی نہیں تھا یا کسی وجہ سے رہ گیا تھا۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ زمانہ جاہلیت میں عقیقے کارواج نہ تھا یا اس دور کے عقیقے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معتبر نہ سمجھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں سے اکثر اسی زمانے میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے اپنا عقیقہ مسلمان ہونے اور فرصت ملنے کے بعد کیوں نہ کیا ؟ صحیح بات یہ ہے کہ یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ویحتمل أن يقال: إن صح هذا الخبر كان من خصائصه صلى الله عليه وسلم، كما قالوا فى تضحيته عمن لم یضح من أمته.
’’ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے قربانی نہ کر سکنے والے لوگوں کی طرف سے قربانی کی تو علمائے کرام نے کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے۔“ [فتح الباري : 595/9]

◈ حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی یہ احتمال ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :
اؤ هو من خصائصه صلى الله عليه وسلم، كما ضحي عمن لم يضح من أمته، و قد عدهٔ بغضهم من خصائصه.
’’ یا پھر یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے نادار لوگوں کی طرف سے قربانی کا خاصہ شمار کیا۔“ [فتح الباري:595/9]
◈ یہی احتمال علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری نے بھی ذکر کیا ہے۔ [تحفة الأحوذي : 97/5]

نوٹ : محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ (1332-1914ھ) بعثت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیقے والی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وقد ذهب بغض السلف إلى العمل به .
’’ بعض سلف نے اس حدیث کے مطابق عمل کیا ہے . . . “ [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها: 506/6]

? آئیے ان کے ذکر کردہ اور دیگر آثار سلف کا جائزہ لیتے ہیں :

محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ کی طرف یہ قول منسوب ہے :
لو أعلم أنه لم يعق عني، لعققت عن نفسي.
’’ اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ میرا اعقیقہ نہیں کیا گیا تو میں اپنا عقیقہ خود کر لوں۔“ [مصنف ابن أبى شيبة: 113/5]

? لیکن اس کی سند حفص بن غیاث کی ’’ تدلیس“ اور اشعث کے عدم تعین کی بنا پر ’’ضعیف“ ہے۔

محمد بن سیرین رحمہ اللہ ہی کے بارے میں یوں بھی مروی ہے :
كان لا يرى باسا ان يعق قبل السابع أو بعده، وكان يقول : اجعل لحم العقيقة كيف شئت
’’ آپ ساتویں دن سے پہلے یا بعد عقیقہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے : عقیقے کے گوشت کو جیسے چاہو استعمال کرو۔“ [مصنف اين أبى شيبة : 115/5]

? یہ قول بڑوں کے عقیقے کے سلسلے میں غیر صریح ہونے کے ساتھ ساتھ ’’ضعیف“ بھی ہے۔
◈ سلیمان بن طرخان تیمی ’’مدلس“ ہیں اور ان کی طرف سے سماع کی تصریح ثابت نہیں۔

امام حسن بصری تابعی رحمہ اللہ سے ایک قول مروی ہے کہ :
إذا لم يعق عنك، فعق عن نفسك، وإن كنت رجلا.
’’ اگر تیری طرف سے عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو، تو اپنا عقیقہ خود کر لے، چاہے تو بالغ ہی کیوں نہ ہو چکا ہو۔“ [المحلي لابن حزم : 240/6]

? امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اس روایت کی پوری سند ذکر نہیں کی بلکہ امام وکیع بن جراح سے سلسلہ سند شروع کیا ہے۔ امام وکیع رحمہ اللہ، ابن حزم رحمہ اللہ کے پیدا ہونے سے تقریبا دو صدیاں پہلے دنیا سے رخت سفر باندھ چکے تھے۔ لہٰذا یہ سند سخت منقطع ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ کا اس کی سند کو ’’حسن“ قرار دینا تعجب خیز ہے !

امام عطاء بن ابی رباح تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے :
حدثني ابو بكر بن محمد بن هاني : حدثنا ابو بكر بن الاسود : حدثنا خالد بن الحارث : حدثنا طريف بن عيسيٰ، قال : قلت لعطاء في العقيقة، قال : شاة فى الغلام وشاة فى الجارية، قال : فإن لم يعق عنه فكسب الغلام، عق عن نفسه.
’’ طریف بن عیسیٰ کا بیان ہے کہ میں نے امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے عقیقے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا : بچے اور بچی کی طرف سے ایک ایک بکری کفایت کر جاتی ہے۔ اگر بچے کی طرف سے عقیقہ نہ کیا جا سکے اور وہ بڑا ہو کر کمائی کرے تو اپنی طرف سے عقیقہ کرے۔“ [النفقة على العيال لابن أبى الدنيا :213/1]

? لیکن اس کے راوی طریف بن عیسیٰ عنبری کے حالات معلوم نہیں ہو سکے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (الثقات: 327/8) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ وہ چونکہ مجہول راویوں کی توثیق کر دیتے ہیں، لہٰذا ان کی منفرد توثیق کا کوئی اعتبارنہیں۔ یہ راوی مجہول الحال ہی ہے۔ شاید اس کی سند میں ایک اور علت بھی ہو۔

? معلوم ہوا کہ سلف میں سے کوئی بھی بڑی عمر میں عقیقے کی مشروعیت کا قائل و فاعل نہیں تھا۔ صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کا اس کام سے رک جانا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے۔ سلف کا منہج اور محدثین کا طریقہ یہی ہے کہ جب صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کسی حدیث پر عمل کرنے سے باز رہیں تو اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار دیا جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام کا تبرک لینا ثابت ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے غیر نبی کے بارے میں ایسا کام ثابت نہیں، لہٰذا اہل سنت والجماعت نے تبرکات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص سمجھ لیا۔ اسی بارے میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ (538-590 ھ) لکھتے ہیں :
ان الصحابة رضي الله عنهم بعد موته صلى الله عليه وسلم لم يقع من احد منهم شيء من ذلك لم يثبت لواحد منهم من طريق صحيح معروف ان متبركا تبرك به على احد تلك الوجوه او نحوها، بل اقتصروا فيهم على الاقتداء بالأفعال والأقوال والسير التى اتبعوا فيها النبى صلى الله عليه وسلم، فهو إذا إجماع منهم على ترك تلك الأشياء كلها.
’’ صحابہ کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسا کوئی کام سرزد نہیں ہوا۔ ان میں سے کسی سے بھی یہ بات ثابت نہیں کہ اس نے اس طرح کوئی تبرک لیا ہو۔ بلکہ وہ اس سلسلے میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور سیرت طیبہ سے رہنمائی لینے تک محدود ہو گئے۔ چنانچہ صحابہ کرام کا یہ عمل ان سب تبرکات کو چھوڑ دینے پر اجماع ہے۔“ [الاعتصام : 302,301/2]

➋ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
كل غلام مرتهن بعقيقته ’’ ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض رہن رہتا ہے۔“ [المنتقی لابن الجارود: 910، وسندهٔ حسن]
اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بڑی عمر میں عقیقے کے قائل اہل علم نے لکھا ہے : ’’جب ہر بچہ عقیقے کی وجہ سے رہن رہتا ہے تو ہر رہن کو چھڑانا بھی چاہیے اور شرعی عذر وغیرہ سے رہ جانے والے انسانوں کو چاہیے جب موقع ملے عقیقہ کر کے بچے کو اس رہن سے چھڑا لیں۔“ [ضرب حق، شماره 11، ص 42]

? ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ حدیث تو ہماری دلیل ہے۔ اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ عقیقے کا مرہون بچہ ہی ہوتا ہے، بڑا نہیں، لہٰذا جب کوئی شخص بڑا ہو جاتا ہے تو وہ اس رہن سے خود بخود آزاد ہو جاتا ہے۔

پھر مذکورہ عبارت میں ہمارے قابل احترام اہل علم کے قلم نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ مرہون صرف بچہ ہوتا ہے اور موقع ملنے پر بچے ہی کا عقیقہ کرنا چاہیے۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ عقیقہ صرف بچے کا ہو گا، بڑے کا نہیں۔ بچے کے بارے میں بھی ساتویں دن کی قید احادیث سے ثابت ہو چکی ہے۔ بعض اسلاف امت نے جو چودھویں اور اکیسویں دن تک کی رخصت دی ہے تو اس کی وجہ بعض ’’ضعیف“ روایات ہیں۔ اسی وجہ سے اکیسویں دن کے بعد عقیقہ کے قائل و فاعل ہونے کی کوئی مثال خیرالقرون کے بہترین عہد میں نہیں ملتی۔

◈ اور یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
والعمل على هذا عند أهل العلم، يستحبون أن يذبح عن الغلام العقيقة يوم السابع، فإن لم يتهيا يؤم السابع، فيوم الرابع عشر، فإن لم يتهيا عق عنه يوم حاد و عشرين.
’’ اسی حدیث پر اہل علم کا عمل ہے۔ وہ بچے کی طرف سے ساتویں دن جانور ذبح کرنا مستحب سمجھتے ہیں۔ اگر ساتویں دن نہ ہو سکے تو چودھویں دن اور اگر چودھویں دن بھی نہ ہو سکے تو اکیسویں دن۔“ [جامع الترمذي، تحت الحديث : 1522]

? یعنی صحابہ و تابعین و ائمہ دین جنہوں نے اس حدیث پر عمل کیا ہے، وہ صرف ساتویں، چودھویں اور اکیسویں دن ہی بچے کے عقیقے کے قائل رہے ہیں۔ امام صاحب کے اس قول سے روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہو رہی ہے کہ ان کے دور تک اکیسویں دن کے بعد عقیقے کا کوئی اہل علم قائل نہ تھا، نیز امام صاحب کے نزدیک حدیث پر عمل کا یہی تقاضا تھا۔ بڑی عمر والوں کے لیے صحابہ و تابعین میں سے کسی نے عقیقہ کرنے کی رخصت نہیں دی۔ ایسا کیوں ہوا ؟ صرف اس لیے کہ حدیث میں عقیقے کے سلسلے میں ذکر بچے ہی کا ہے، بڑے کا نہیں۔ فليتدبر

? بطور یاد دہانی یہ عرض کرتے چلیں کہ جن احادیث سے ہم نے صرف بچے کے لیے عقیقے کا استدلال کیا ہے، ان احادیث سے استدلال کرنے میں ہمیں اولیت حاصل نہیں، بلکہ جیسا کہ ہم نے ذکر کر دیا، امام ترمذی رحمہ اللہ، دیگر ائمہ دین، حافظ ابن بطال اور حافظ ابن عبدالبر وغیرہم کا فہم ہمارے پیش نظر رہا ہے۔ لیکن بڑی عمر میں عقیقے کے مجوزین احادیث سے استدلال کرنے میں اپنا کوئی سلف نہیں رکھتے۔ رہے حافظ ابن حزم اور حافظ ابن القیم رحمها اللہ تو وہ ان کے سلف نہیں بن سکتے۔ ابن حزم اس لیے کہ وہ عقیقے کے وجوب کے قائل ہیں اور اسی وجوب کو دلیل بنا کر انہوں نے عمر کے کسی بھی حصے میں اس کی ادائیگی کا موقف اپنایا، نیز وہ ساتویں دن سے پہلے فوت ہو جانے والے بچے کا عقیقہ بھی واجب سمجھتے ہیں اور ابن القیم اس لیے نہیں کہ وہ عقیقے کے لیے کوئی مدت مقرر سمجھتے ہی نہیں، اسی لیے انہوں نے ساتویں دن سے پہلے بھی عقیقے کو جائز قرار دیا۔ ہمارے قابل قدر اہل علم ان دونوں سے اتفاق نہیں رکھتے، بلکہ وہ عقیقے کے وجوب اور ساتویں دن سے پہلے عقیقے کی رخصت، دونوں باتوں کو شذوذ سمجھتے ہیں۔ پھر اگر وہ اس مسئلے میں ان دونوں حفاظ کو اپنا سلف مان بھی لیں تو ان دونوں اصحاب کی شاذ بات ان کے اپنے سلف، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ بھلا کیاحیثیت رکھے گی ؟

? معلوم ہوا کہ ہمارے قابل قدر اہل علم کا یہ کہنا درست نہیں کہ : ’’ اگر کسی عذر کی وجہ سے ساتویں دن عقیقہ کی سنت پر عمل نہ ہو سکے تو پھر جب بھی زندگی میں موقع ملے عقیقہ کر لینا چاہیے اور یہی راجح و صواب ہے۔“ [ماهنامه ضرب حق : شماره 11، ص : 42]

? ویسے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بڑی عمر میں عقیقہ کرنے کے لیے عذر کی بنا پر رہنے کی شرط کیوں ہے ؟ اگر کسی شخص کے والدین نے بغیر کسی شرعی عذر کے اس کا عقیقہ نہ کیا اور وہ جوان ہو گیا تو کیا اب وہ مرہون نہیں رہا ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟ اگر ہے تو اس شرط کا کیا فائدہ ؟

الحاصل : نصوص شرعیہ کی روشنی میں عقیقہ بچپن ہی میں اور ساتویں دن ہی مشروع ہے۔ ہمارے اسلاف صالحین سے یہی منقول ہے۔ اگرچہ بعض سلف نے چند روایات کے مدنظر چودھویں اور اکیسویں دن بھی عقیقے کی رخصت دی ہے لیکن وہ روایات ’’ ضعیف“ ہونے کی بنا پر ان کا یہ موقف مرجوح ہے۔ رہا بڑی عمر میں عقیقہ تو اس کا سلف میں کوئی قائل و فاعل نہیں رہا۔ اہل حق کا یہی وطیرہ ہے کہ وہ شریعت کی منہح سلف پر تعمیل کرتے ہیں۔ فہم سلف سے ہٹ کر حق کو پانا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سلف کے نقش قدم پر ہی زندہ رکھے۔ آمین

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!