حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں : ابوعمرو بن حمدان (حسن بن نفیر، عمرو بن عثمان، بقیہ بن ولید، بحیر بن سعید، خالد بن معدان، عبدالرحمن بن عمرو سلمیٰ) عتبہ بن عبد الله سے بیان کرتے ہیں کہ کسی صحابی نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ کے ابتدائی حالات کیسے تھے؟ تو آپ نے فرمایا : میری رضاعی ماں، بنی سعد بنی بکر سے تھی، میں نے بھائی سے کہا جاؤ امی سے کھانا لے آو، چنانچہ وہ کھانا لینے چلا گیا اور میں ریوڑ کے پاس تھا کہ دو سفید پرندے آئے گدھ کی طرح۔ ایک نے دوسرے کو کہا، کیا یہی ہے، دوسرے نے کہا ہاں! پھر دونوں نے مجھے جھپٹ کر پکڑا اور گدی کے بل پچھاڑ دیا پھر پیٹ چاک کر کے دل نکالا اور اس کو چیر کر دو سیاہ بوٹیاں نکالیں پھر ایک نے دوسرے کو کہا : برف کا ٹھنڈا پانی لاؤ، اس پانی سے انھوں نے میرا پیٹ دھویا پھر اولے کے ٹھنڈے پانی سے میرا دل صاف کیا، بعد ازاں اس نے کہا : سکینت اور تسکین قلبی لاؤ، پھر اس نے یہ دل پھر چھڑک دی۔ پھر ایک نے دوسرے کو کہا، ان کو ترازو کے ایک پلڑے میں بٹھاؤ اور دوسرے پلڑے میں ایک ہزار امتی، میں دیکھ رہا تھا کہ ہزار والا پلڑا اوپر اٹھا ہوا تھا، ہلکا تھا، مجھے خطرہ تھا کہ وہ مجھ پر گر نہ پڑیں پھر انھوں نے کہا : اگر پوری امت کے برابر بھی تولا جائے تو پھر بھی وزنی ہوگا۔ پھر مجھے چھوڑ کر چلے گئے اور میں سخت خوفزدہ تھا۔ پھر میں نے امی کو سارا واقعہ بتایا تو اس کو خطرہ لاحق ہوا کہ بچے کی عقل ٹھیک نہیں رہی اور اس نے دعا دی کہ میں تجھے اللہ کی پناہ میں دیتی ہوں، پھر اس نے سواری کو تیار کر کے مجھے پیچھے بٹھایا اور ہم مکہ میں پہنچ گئے تو اس نے میری والدہ سے کہا : میں نے امانت واپس کر دی اور اپنی ذمہ داری نبھا دی ہے اور اس نے میرا ماجرا بھی بتایا تو والدہ کو کوئی فکر لاحق نہ ہوا اور اسے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے جسم سے نور خارج ہوا ہے، جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے ہیں۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [مسند احمد 4/ 184، 185 رقم الحديث17798 سنن دارمي حديث رقم 13 ذكر الذهبي فى تاريخ الاسلام
49،48/2 مجمع الزوائد 222/8 مستدرك للحاكم 616/2]
ان کے ہاں، یہ حدیث عتبہ بن عبد السلمی کی ہے۔ اس کا دارومدار بقیہ بن ولید پر ہے اور وہ مدلس ہے سند کے کسی بھی حصے میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی بلکہ تمام طبقات میں عنعنہ سے بیان کیا ہے۔
نیز بحیر بن سعد اور خالد بن معدان کے درمیان بھی سماع کی صراحت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہے۔