سوال:
بریلوی علماء اپنی مروجہ بدعات کو ثابت کرنے کے لیے درج ذیل دلائل پیش کرتے ہیں:
➊ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کی جماعت کا حکم دینا اور فرمانا
"نعمت البدعة هذه” (یہ ایک اچھی بدعت ہے)، لہٰذا اچھی بدعت جائز ہے۔
➋ مرقاۃ باب الاحکام میں حدیث:
"جس کام کو مسلمان اچھا جانیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے۔”
➌ مشکوٰۃ باب العلم میں حدیث:
"جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے گا، اسے اس کا ثواب ملے گا، اور جو اس پر عمل کریں گے، ان کے ثواب میں بھی کمی نہ ہوگی۔ اور جو شخص اسلام میں برا طریقہ جاری کرے گا، اس پر اس کا گناہ بھی ہوگا، اور جو اس پر عمل کریں گے، ان کے گناہ میں بھی کمی نہ ہوگی۔”
سوال یہ ہے کہ کیا "بدعت حسنہ” اور "بدعت سئیہ” کی تقسیم درست ہے؟ جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل اور قول موجود ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”
"اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
📖 (صحیح مسلم)
جواب:
الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
پہلا اعتراض: "نعمت البدعة هذه” کا معنی اور بدعت لغوی و شرعی
◈ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"نعمت البدعة هذه”
"یہ بہترین بدعت ہے۔”
📖 (صحیح بخاری 2010)
اس قول سے بدعتِ حسنہ کا اثبات نہیں ہوتا، کیونکہ:
یہاں "بدعت” سے مراد شرعی بدعت نہیں، بلکہ لغوی بدعت ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، امام ابن رجب، امام شاطبی، اور دیگر محققین کے مطابق "بدعت” دو طرح کی ہوتی ہے:
➊ **بدعتِ شرعی:**
وہ عمل جو دین میں نیا اضافہ ہو، اور جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔
یہ سراسر حرام اور گمراہی ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”
"اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
📖 (صحیح مسلم 867)
➋ **بدعتِ لغوی:**
وہ عمل جو اصل میں ثابت ہو لیکن بعد میں اسے باقاعدہ طریقے سے منظم کیا جائے۔
جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو تراویح کی جماعت پر جمع کیا، جبکہ یہ سنت پہلے سے موجود تھی۔
◈ رسول اللہ ﷺ نے خود کئی راتوں میں تراویح کی جماعت کروائی، لیکن بعد میں اسے ترک کیا، اس خوف سے کہ کہیں امت پر فرض نہ ہو جائے۔
📖 (صحیح بخاری 2012، صحیح مسلم 761)
◈ امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"بدعت دو قسم کی ہوتی ہے: ایک بدعت شرعی، جو دین میں نیا اضافہ ہو، اور دوسری بدعت لغوی، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کے بارے میں فرمان۔”
📖 (تفسیر ابن کثیر 1/348)
لہٰذا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا "نعمت البدعة هذه” کہنا بدعت شرعی کی دلیل نہیں، بلکہ بدعت لغوی کی وضاحت ہے۔
دوسرا اعتراض: "جس کام کو مسلمان اچھا جانیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے”
◈ یہ حدیث اکثر لوگ دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ صحیح حدیث نہیں بلکہ ضعیف روایت ہے۔
امام ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"یہ قول صحیح سند سے ثابت نہیں۔”
📖 (جامع العلوم والحکم 28)
یہ حدیث اجماع کے لیے بطور دلیل پیش کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا بدعت حسنہ سے کوئی تعلق نہیں۔
◈ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جو چیز اس وقت دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی۔”
📖 (الاعتصام للشاطبی 1/50)
تیسرا اعتراض: "جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے…”
◈ یہ حدیث بالکل صحیح ہے، لیکن اس کا مطلب "نئی بدعت” نکالنا نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی پہلے سے موجود نیکی کو زندہ کرے، اسے اس کا اجر ملے گا۔
حدیث کا سیاق و سباق دیکھیں:
◈ یہ حدیث اس وقت کہی گئی جب کچھ صحابہ کرام نے ایک محتاج قبیلے کی مدد کی، اور دوسرے لوگ بھی اس عمل میں شریک ہو گئے۔
📖 (صحیح مسلم 1017)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس حدیث کا مطلب ہے کہ جو کوئی پہلے سے موجود سنت کو زندہ کرے، اسے اس کا ثواب ملے گا۔”
📖 (شرح مسلم 16/226)
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس حدیث میں بدعت کی گنجائش نہیں، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ جو نیکی کا دروازہ کھولے، اسے ثواب ملے گا۔”
📖 (فتح الباری 13/253)
لہٰذا، اس حدیث کو "بدعت حسنہ” کے ثبوت کے لیے پیش کرنا غلط ہے۔
چوتھا اعتراض: بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ کی تقسیم؟
◈ قرآن و حدیث میں "بدعت حسنہ” اور "بدعت سئیہ” کی کوئی تقسیم نہیں۔
◈ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"وَكُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ”
"اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
📖 (صحیح مسلم 867)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"كل بدعة ضلالة وإن رآها الناس حسنة”
"ہر بدعت گمراہی ہے، چاہے لوگ اسے اچھا ہی کیوں نہ سمجھیں۔”
📖 (السنۃ للمروزی 81، سند حسن)
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"بدعت چاہے کیسی بھی ہو، دین میں نیا اضافہ ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔”
📖 (الاعتصام 1/50)
لہٰذا، "بدعت حسنہ” کی اصطلاح شرعی لحاظ سے غلط ہے، کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
خلاصہ
"نعمت البدعة هذه” سے مراد "لغوی بدعت” ہے، نہ کہ شرعی بدعت۔
"جس کام کو مسلمان اچھا جانیں، وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے” یہ حدیث ضعیف ہے۔
"جو کوئی اسلام میں اچھا طریقہ جاری کرے…” کا مطلب "پہلے سے موجود نیکی کو زندہ کرنا” ہے، نہ کہ نئی بدعت ایجاد کرنا۔
بدعت حسنہ اور بدعت سئیہ کی تقسیم غیر شرعی اور غلط ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ہر بدعت گمراہی ہے۔”
📖 "واللہ أعلم بالصواب”