بخت نصر کے خواب والا قصہ
بنی اسرائیل کی بابل کی زمین سے نجات پانے کا سبب بخت نصر کا خواب تھا۔ اس نے ایک خواب دیکھا جس سے وہ ڈر گیا، لہذا اس نے اپنے کاہنوں اور جادوگروں کو بلایا ۔ اس نے ان کو اس خواب کی خبر دی جس سے اس کو تکلیف پہنچی تھی اور اس نے ان سے کہا کہ وہ اس کی تعبیر بیان کریں۔ انھوں نے کہا : ہم کو خواب بیان کر اس نے کہا: میں وہ خواب بھول گیا ہوں۔ پس تم مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ۔ انھوں نے کہا: ہم تجھ کو اس کی تعبیر نہیں بتاسکتے جب تک تو اس کو بیان نہ کرے، چنانچہ وہ ناراض ہو گیا اور اس نے کہا: میں نے تم کو اس کام کے لیے چنا ہے۔ میں تمھیں تین دن کی مہلت دیتا ہوں، اگر تم نے اس کی تعبیر نہ بتائی تو میں تمھیں قتل کر دوں گا۔ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی، اور یہ بات دانیال کو بھی پہنچی جبکہ وہ جیل میں تھے۔ انھوں نے اپنے اس داروغے سے کہا جو ان کے ساتھ احسان کرنے والا تھا : کیا تیرے لیے ممکن ہے کہ بادشاہ کے ہاں میرا تذکرہ کرو، کیونکہ میرے پاس خوابوں کا علم ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ تو اس وجہ سے بادشاہ کے ہاں مقام پالے گا اور میری رہائی کا سبب ہوگا ؟ داروغے نے کہا: میں تجھ پر بادشاہ کے ظلم سے ڈرتا ہوں ۔شاید قید کے غم نے تمھیں اس بات پر ابھارا ہے جس کا تمھیں علم نہیں ہے۔ پھر بھی میں گمان کرتا ہوں کہ اگر اس خواب کا علم کسی کو ہے تو وہ تو ہی ہے۔ دانیال نے کہا: تو میرے بارے میں نہ ڈرنہ کیونکہ میرا ایک رب ہے جو مجھے میری ضرورت کی خبر دیتا ہے۔ داروغہ گیا اور بخت نصر کو اس کی خبر دی، چنانچہ اس نے دانیال کو بلایا تو انھیں اس کے سامنے پیش کیا گیا اور اس کے پاس جو بھی جاتا وہ اس کو سجدہ کرتا جبکہ دانیال ٹھہر گئے اور سجدہ نہ کیا۔ بادشاہ نے ان لوگوں سے کہا جو گھر میں موجود تھے کہ نکل جاؤ تو وہ سب نکل گئے۔ بخت نصر نے دانیال کو کہا: تو نے مجھے سجدہ کیوں نہیں کیا۔ دانیال نے کہا: میرا ایک رب ہے جس نے مجھے یہ علم دیا ہے جس کو تو نے سنا۔ مجھ پر لازم ہے کہ میں غیر کو سجدہ نہ کروں ۔ پس میں ڈرتا ہوں کہ اگر میں تجھے سجدہ کروں تو وہ مجھ سے یہ علم چھین لے گا ، پھر میں تیرے سامنے ان پڑھ ہو جاؤں گا ۔ پس تو مجھ سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے گا اور تو مجھے قتل کر دے گا ۔ میں نے سوچا قتل ہونے سے سجدہ چھوڑ دینا زیادہ آسان ہے۔ سجدے کا خطرہ جس پریشانی میں تو ہے زیادہ آسان ہے، اسی غرض سے میں سجدہ ترک کر دیا ۔ بخت نصر نے کہا: میرے نزدیک اس وقت تجھ سے زیادہ اعتماد والا کوئی نہیں، جبکہ تو نے اپنے معبود کے وعدے کو پورا کیا۔ میرے نزدیک وہ لوگ زیادہ پسندیدہ ہیں جو اپنے بادشاہوں کے وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ جو میں نے خواب دیکھا ہے، کیا تیرے پاس اس کا علم ہے؟ اس نے کہا: ہاں اس کا علم اور اس کی تاویل کا علم میرے پاس ہے۔ جو تو نے بڑا بت دیکھا جس کی دونوں ٹانگیں زمین میں تھیں اور اس کا سر آسمان میں اور اس کا اوپر والا حصہ سونے کا اور اس کا درمیان والا حصہ چاندی کا اور اس کے نیچے والا حصہ پیتل کا اور اس کی دونوں پنڈلیاں لوہے کی اور اس کی دونوں ٹانگیں مٹی کی اور تو نے اس کی طرف دیکھا۔ تجھے اس کا حسن اور اس کی بناوٹ اچھی لگی ۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے پتھر پھینکا جو اس کے سر کی چوٹی پر لگا اس نے اس کو پیس دیا۔ اس کا سونا، اس کی چاندی، اس کا پیتل، اس کا لوہا اور اس کی مٹی (خلط ملط) ہو گئی ۔ یہاں تک کہ تجھے خیال ہونے لگا کہ اگر تمام جن و انس مل کر اس کے بعض کو بعض سے علیحدہ کریں تو وہ اس کی طاقت نہیں رکھ سکتے اور اگر ہوا چلے اور اس کو بکھیر دے اور پتھر جو تو نے دیکھا جو پھینکا گیا وہ بڑا ہوتا ہے اور پھیلتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے ساری زمین کو بھر دیا ۔ تو صرف آسمان اور پتھر کو دیکھنے والا ہو گیا۔ بخت نصر نے کہا: تو نے سچ کہا میں نے یہی خواب دیکھا ہے، لہذا اس کی تعبیر کیا ہے؟
دانیال نے کہا: جو بت ہے وہ پہلے زمانے ، درمیانے زمانے اور اخیر زمانے کی مختلف امتیں ہیں اور جو سونا ہے پس یہ وہ زمانہ اور امت ہے جس میں تو ہے اور تو اس کا بادشاہ ہے اور جو چاندی ہے پس وہ تیرا بیٹا تیرے بعد بادشاہ ہو گا جو پیتل ہے وہ رومی ہیں اور جو لوہا ہے وہ فارس ہے اور جو مٹی ہے وہ دو امتیں ہیں جن کی بادشاہ دو عورتیں ہوں گی ایک ان میں سے یمن کے مشرق میں اور دوسری شام کے مغرب میں ہوگی ۔ اور جس پتھر کے ساتھ بت کو مارا گیا ہے وہ اللہ کا دین ہے۔ وہ ختم کرے گا اس امت کو آخری زمانے میں تاکہ وہ اس کو غالب کرے اس پر اللہ تعالیٰ ایک امی نبی عرب سے بھیجے گا۔ پس اللہ تعالیٰ مٹادے گا اس کے ساتھ امتوں اور ادیان کو ، جیسا کہ تو نے پتھر دیکھا جس نے بت کی قسموں کو مٹا دیا۔ اور غالب کرے گا اس کو ادیان اور امتوں پر، جیسا کہ تو نے پتھر کو دیکھا جو زمین پر ظاہر ہوا اور اس میں پھیل گیا یہاں تک کہ وہ اس پر غالب آ گیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ حق کو مضبوط کرے گا اور مٹائے گا اس کے ساتھ باطل کو اور ہدایت دے گا اس کے ساتھ گمراہوں کو اور وہ سکھائے گا اس کے ساتھ ان پڑوں کو اور قوی کرے گا اس کے ساتھ کمزور کو اور عزت دے گا ذلیل کو اور مدد کرے گا کمزوروں کی۔
بخت نصر نے کہا: میں نہیں جانتا کہ جب سے مجھے بادشاہت ملی ہے میں نے کسی سے مدد طلب کی ہو اور کوئی چیز پر غالب آئی ہو مجھ پر تیرے علاوہ اور میرے نزدیک تجھ سے زیادہ معزز کوئی نہیں، میں تجھے تیرے احسان کی جزا دیتا ہوں اور ذکر کیا قصہ جو اس کے ساتھ ملا ہوا ہے۔
اس واقعہ کی تفصیل درج ذیل ہے:
❀ امام ابونعیم نے کہا:
ثنا أحمد بن السندي بن بحر، قال: ثنا الحسن بن علويه القطان قال ثنا اسماعيل بن عيسى قال ثنا اسحاق بن بشر أبو حذيفة قال: ثنا سعيد بن بشير عن قتادة عن كعب الاحبار قال ……. إلخ
(دلائل النبوة ج 1 ص 83 ح 44)
تاریخ دمشق ( ١٦٣/٥ ت (٧٣)
میں یہ واقعہ بغیر سند کے موجود ہے۔
اس قصے کی سند تین وجہ سے سخت ضعیف ہے:
◈➊اس سند میں ایک راوی اسحاق بن بشیر کذاب ہے۔
❀ امام حبان نے کہا:
’’كان يضع الحديث على الثقات.
ثقہ راویوں پر حدیثیں گھڑتا تھا
(المجروحين ت 60 ج 1 ص 146)
❀ امام ابو زرعہ نے کہا:
’’ كان يكذب يحدث عن مالك أبي و معشر بأحادیث موضوعة “
وہ جھوٹ بولتا تھا۔ امام مالک اور ابو معشر سے موضوع حدیثیں بیان کرتا تھا۔
(الجرح والتعديل ج2 ت 744)
❀ امام ابو حاتم نے فرمایا:
’’كان يكذب“
وہ جھوٹ بولتا تھا۔ (ایضاً)
◈➋ دوسری وجہ قتادہ مدلس ہیں اور روایت عن سے کر رہے ہیں اور مدلس راوی جب تک سماع کی صراحت نہ کرے اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی۔
◈➌ تیسری وجہ قتادہ کی کعب الاحبار سے ملاقات ثابت نہیں ہے، یعنی انقطاع ہے کیونکہ کعب الاحبار سیدنا عثمانؓ کی خلافت کے آخر میں فوت ہو گئے تھے، لہذا یہ سند منقطع ہے۔
(دیکھئے سیر اعلام النبلاء (٥٩٦/٣)
خلاصة التحقيق:
یہ سارا قصہ باطل، من گھڑت اور موضوع ہے۔