باطل فرقوں کے 6 عقائد کا علمی و تاریخی تجزیہ
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ،ج1ص، 219

چند باطل فرقوں کا تعارف

➊ الزنادقہ (زندیق کی جمع)

لغوی و اصطلاحی معنی:

"زنادقہ” زندیق کی جمع ہے۔ فیروز آبادیؒ نے "القاموس” میں زندیق کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

"الزندیق زاء کی کسرہ کے ساتھ وہ شخص ہے جو دو معبودوں کا قائل ہو، ظلمت اور نور کے قائل ہوں، آخرت اور ربوبیت پر یقین نہ رکھتے ہوں، یا جو بظاہر ایمان کا اظہار کرے مگر دل میں کفر چھپائے۔”
یہ لفظ فارسی "زن دین” سے معرب ہے، جس کا مطلب ہے: "عورت کا دین”۔

حدیث کی روشنی میں:

مشکوٰۃ (2/207) میں حدیث عکرمہؓ کے تحت ذکر ہے:

"علیؓ کے پاس زندیق لائے گئے، آپ نے ان کو جلا دیا۔”
ملا علی قاریؒ نے اس حدیث کی شرح میں مرقات میں لکھا کہ:
"زندیق وہ ہے جو بقاء دہر کا قائل ہے، آخرت اور خالق کا انکار کرتا ہے، حلال و حرام کو برابر سمجھتا ہے۔ اس کی توبہ کی قبولیت کے بارے میں دو آراء ہیں۔ راجح یہی ہے کہ امام و قاضی کے پاس اس کی توبہ قبول نہیں، البتہ اللہ کے نزدیک سچی توبہ ہر کافر کی قبول ہوتی ہے۔”

مزید وضاحت:

ثعلبؒ کے مطابق، "زنديق” اور "برزين” عربی الفاظ نہیں، بلکہ عوام کے نزدیک ان کا مطلب "ملحد” اور "دہریہ” ہے۔
مولانا عبد الحق دہلویؒ نے مشکوٰۃ کے حواشی میں کہا کہ یہ مجوسیوں کی کتاب "زند” کے پیروکار تھے۔ ان زندیقوں سے مراد وہ لوگ تھے جو مرتد ہوچکے تھے یا عبد اللہ بن مبارک کے پیروکار تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ "علی رب ہیں”۔ ان سے توبہ کروائی گئی، مگر توبہ نہ کرنے پر انہیں آگ میں ڈال دیا گیا۔
بعد ازاں، جب ابن عباسؓ کا یہ قول ملا کہ "آگ کا عذاب صرف اللہ دے سکتا ہے”، تو اس سزا سے رجوع کرلیا گیا۔

➋ الطبعیین (اصحاب طبیعیات)

عقائد:

یہ وہ لوگ ہیں جو اشیاء کے پیدا ہونے کو محض اتفاقی سمجھتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ:

"یہ کائنات طبعی اصولوں کے مطابق اور اتفاقاً وجود میں آئی ہے۔”

حقیقت:

یہ لوگ درحقیقت دہریے ہیں۔ ان کے پاس اپنے دعوؤں کی کوئی دلیل نہیں، بلکہ صرف گمان اور تخمینات کی پیروی کرتے ہیں۔

➌ القدریۃ (انکارِ تقدیر کے قائل)

تاریخی پس منظر:

یہ گمراہ فرقہ صحابہ کرامؓ کے آخری دور میں ظاہر ہوا۔ سب سے پہلے "معبد جہنی” نے بصرہ میں تقدیر کے انکار کی بات کی۔
جیسا کہ امام مسلمؒ نے اپنی صحیح (1/27) میں روایت کیا ہے کہ وہ حسن بصریؒ کی مجلس میں بیٹھا کرتا تھا، لیکن انہوں نے اسے نکال دیا۔
عمرو بن عبید نے بھی اس کی بات مانی، جسے بعد میں حجاج بن یوسف نے قتل کر دیا۔

تفصیلات:

امام نوویؒ نے شرح مسلم میں لکھا ہے:

"قدریہ مختلف گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ کچھ اللہ کے علمِ سابق کے منکر ہیں، کچھ تقدیر کے وقوع سے پہلے انکار کرتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ بندہ اپنے اعمال کا خود خالق ہے۔”
ان کے عقائد کی مزید تفصیلات مجموع الفتاوی (8/288-289) میں موجود ہیں۔

اقوالِ ائمہ:

کچھ قدریہ امر و نہی، جزا و سزا کو مانتے ہیں لیکن اللہ کی قضاء و قدر کے تقدم کے منکر ہیں۔
یہ فرقہ مالک، شافعی، احمد بن حنبل جیسے ائمہ کے نزدیک کافر شمار ہوا کیونکہ یہ اللہ کے علم قدیم کا انکار کرتے ہیں۔
کچھ قدریہ اللہ کے علم اور لوحِ محفوظ پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ان کے نزدیک پھر عمل کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

➍ الجبریۃ (جبر کے قائل)

عقائد:

یہ گروہ یہ کہتا ہے کہ:

"انسان بالکل بے اختیار ہے، جیسے جمادات۔ نہ اس کا ارادہ ہے، نہ کسب، نہ اختیار۔”

تعلق:

یہ درحقیقت قدریہ ہی کا ایک گروہ ہے، جن کی مختلف اصناف موجود ہیں۔

حوالہ:

(الملل والنحل للشہرستانی 1/79)

➎ الناصبیۃ (اہلِ بیتؓ کے دشمن)

تعریف:

ابن منظور لسان العرب (14/157) میں کہتے ہیں:

"ناصبی وہ فرقہ ہے جس کا دین علیؓ سے بغض رکھنا ہے۔”

شعری حوالہ:

امام ابن قیمؒ نے اپنی قصیدے کے آغاز میں کہا:

"إن كان نصبا حب صحب محمد
فليشهد الثقلان أني ناصبي”

استعمال:

رافضی، اہل سنت کو "ناصبی” کہتے ہیں، جیسا کہ الغنیہ (1/85) میں مذکور ہے۔

➏ الغلاۃ (غلو کرنے والے)

تعریف:

"غلاۃ” ہر اس فرد یا گروہ کو کہا جاتا ہے جو اپنے عقائد یا اعمال میں حد سے تجاوز کرے۔

اختتامیہ:

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1