بازار میں داخلے سے متعلق دعا کی اسنادی حیثیت
ماخوز: ماہنامہ الحدیث حضرو (پی ڈی ایف لنک)

بازار میں داخل ہوتے وقت کی دعا

سوال

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’جو شخص بازار میں داخل ہو اور یہ پڑھے:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ۔
’’تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک لاکھ نیکیاں لکھ دیتا ہے، ایک لاکھ خطائیں معاف کر دیتا ہے اور اس کے لیے جنت میں گھر بنادیتا ہے“
گزارش یہ ہے کہ حافظ زبیر علی زئیؒ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے، جبکہ کئی علماء اسے صحیح بھی کہتے ہیں جس سے میرے کچھ دوست پریشان ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، اس سلسلے میں وضاحت درکار ہے۔

الجواب

ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ ضعیف ہی ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

پہلا طریق :۔۔۔۔عمرو بن دینار قهرمان آل الزبیر کی سند سے مروی ہے۔
دیکھئے: سنن الترمذي (٣٤٢٩) ، سنن ابن ماجه (٢٢٣٥)، مسند أحمد (١/ ٤٧ ، ح ٣٢٧)، مسند الطيالسي (۱۲)، مسند البزار (١٢٥)، کتاب الدعاء للطبراني (۷۸۹) عمل اليوم والليلة لابن السني (۱۸۲) وغيره
عمرو بن دینار قهرمان آل الزبیر مذکور ضعیف الحدیث ہے۔

➊امام یحییٰ بن معین نے فرمایا:
” لَيْسَ بِشَيء“.
(تاریخ عثمان بن سعيد الدارمي : ٤٤٩)

➋امام بخاری نے فرمایا:
”فِيهِ نَظرٌ‘‘
(كتاب الضعفاء : ٢٦٧)

➌امام ترمذی نے فرمایا:
’’قَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ .“
(سنن الترمذي : ٣٤٢٩)

➍امام نسائی نے فرمایا:
”ضعیف“
(الضعفاء والمتروكون: ٤٥٢)

➎امام ابوزرعہ الرازی نے فرمایا:
’’وَاهى الْحَدِيثِ“
(الجرح والتعديل : ٢٩٩/٦ ، ت ١٢٨١)

➏امام ابو حاتم الرازی نے فرمایا:
”ضعیف“
(الجرح والتعديل ٦ / ٢٩٩)

➐امام جوز جانی نے فرمایا:
’’ضَعِيفُ الْحَدِيثِ‘‘
(احوال الرجال : ۱۷۱)

➑امام دار ارقطنی نے فرمایا:
”ضعیف“
(العلل ٢/ ٤٩ ، ٥٠)

➒حافظ ابن حجر نے فرمایا:
”ضعیف“
(تقريب التهذيب : ٥٠٢٥)
عمرو بن دینار چونکہ جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف ہے، لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔

دوسرا طریق:۔۔۔۔ ازہر بن سنان کی سند سے مروی ہے۔
دیکھئے: سنن الترمذي (٣٤٢٨) ، مسند عبد بن حمید (۲۸)، سنن الدارمي (٢٦٩٢) ، حلية الأولياء (٣٥٥/٢) ، كتاب الدعاء للطبراني (۷۹۲)، المستدرك للحاكم (٥٣٨/١)

ازہر بن سنان ضعیف ہے۔
➊امام ابن معین نے کہا:
”لَيْسَ بِشَيْءٍ“
(موسوعة أقوال يحيى بن معين ١/ ١٩٩)

➋امام احمد نے ’’ لینٌ ‘‘ قرار دیا ہے۔
(العلل ومعرفة الرجال : ١٥٢)

➌امام ترندی نے اس کی حدیث کو ’’غریبٌ “ کہا ہے۔
(سنن الترمذي : ٣٤٢٨)

➍امام ابن شاہین نے کہا:
’’لَيْسَ بِثِقَة‘‘
(تاريخ أسماء الضعفاء والكذابين : ٦٥)

➎امام ابو جعفر العقیلی نے کہا:
”فِي حَدِيْثِهِ وَهُمُ ‘‘
(كتاب الضعفاء ۳۸۳/۱)

➏حافظ ابن حبان نے فرمایا:
”قَلِيلُ الْحَدِيْثِ مُنْكَرُ الرِّوَايَةِ“
(كتاب المجروحين ٢٠١/١)

➐حافظ ذہبی نے فرمایا:
”فِیهِ لَينٌ‘‘
(المغني في الضعفاء ١/ ١٠٢ ت ٥١٣)

➑حافظ ہیثمی نے فرمایا:
”ضعیف“
(مجمع الزوائد ۳۹۳/۱۰)

➒: علامه بوصیری نے فرمایا:
’’ضَعِيفٌ‘‘
(اتحاف الخيرة المهرة ٣٧٤/٧)

➓حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا:
’’ضَعِيفٌ‘‘
(التقريب : ۳۰۹)

⓫علامہ ناصر الدین البانی نے فرمایا:
”وَهُوَ ضَعِيفٌ إِتَّفَاقًا“
(السلسة الضعيفة ١١/ ٣١٨)

تیسرا طریق:۔۔۔۔ ابوخالد الاحمر ( سلیمان بن حیان ) کی سند سے مروی ہے۔
دیکھئے: المستدرك للحاكم (١/ ٥٣٩)
ابو خالد الاحمر مدلس ہیں اور یہاں سماع کی صراحت نہیں، لہذا یہ بھی ضعیف ہے۔

چوتھا طریق:۔۔۔۔مسروق بن المرزبان کی سند سے مروی ہے۔
دیکھئے: المستدرك للحاكم (١/ ٥٣٩)

امام ذہبی نے تلخيص المستدرك (١/ ٥٣٩) میں تعاقب کرتے ہوئے اگر چہ یہ بھی لکھا ہے کہ
”مسرُوقُ بْنُ الْمَرْزُبَان لَيْسَ بِحُجَّةِ“
لیکن ہمارے نزدیک یہ روایت حفص بن غیاث کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے، کیونکہ یہ مدلس ہیں اور سماع کی صراحت نہیں ہے۔

پانچواں طریق :۔۔۔ یہ رجل بصری عن سالم کی سند سے ہے۔
دیکھئے: المستدرك للحاكم (٥٣٨/١)

امام دارقطنی نے ’’رَجُلٌ بَصَرِی“ سے عمرو بن دینار مراد لیا ہے۔
(العلل للدارقطني ٢/ ٥٠)

اور عمرو کے ضعف کی تفصیل سابقہ صفحات پر بیان ہو چکی ہے۔ اگر اسے عمرو نہ سمجھا جائے تب بھی ’’ رجُلٌ ‘‘ مجہول ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہی ہے۔

چھٹا طریق:۔۔۔۔ یہ عمران بن مسلم کی سند سے مذکور ہے۔
دیکھئے: المستدرك للحاكم (١/ ٥٣٩)

امام ابن ابی حاتم نے فرمایا:
’’وَهَذَا الْحَدِيثُ هُوَ خَطَاء“ یہ روایت خطا پر مبنی ہے.
کیونکہ اس کی اصل سند ’’عِمْرَانُ بنُ مُسْلِمٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، قَهْرَمَانِ آلِ الزُّبَيْرِ عَنْ سَالِمٍ‘‘ ہے، لیکن غلطی سے عمرو بن دینار، عبداللہ بن دینار سے بدل گیا اور سند سے سالم ( بھی ) ساقط ہو گیا ہے۔
(علل الحدیث : ۲۰۳۸)
لہذا یہ روایت بھی امام ابن ابی حاتم کی خاص دلیل وجرح کی وجہ سے ضعیف ہے۔

ساتواں طریق:۔۔۔ یہ عبید اللہ بن عمر العمری کی سند سے مروی ہے۔
دیکھئے: المعجم الكبير للطبراني (١٣١٧٥) حلية الأولياء (٨/ ٢٨٠)
اس کی سند میں سلم بن میمون الخواص ضعیف راوی ہے۔

➊امام ابو حاتم نے فرمایا:
’’وَلَمْ أَكْتُبْ عَنْهُ ‘‘
(الجرح والتعديل : ٢٤٩/٤)

➋امام ابو جعفر العقیلی نے فرمایا:
’’حَدَّثَ بِمَنَاكِيْرِ لَا يُتَابَعُ عَلَيْهَا‘‘
(كتاب الضعفاء : ١٠/٣)

➌حافظ ابن حبان نے فرمایا:
’’فبطَلَ الْاِحْتِجَاجُ بِمَا يَرْوِي إِذَا لَمْ يُوَافِقِ الثِّقَاتِ.“
(كتاب المجروحين : ١/ ٤٣٨)

➍امام ابن عدی نے اس کی اسانید و متون کو منفرد و مقلوب قرار دیا ہے۔
(الكامل لابن عدي : ٣٧٧/٥)

➎حافظ ہیثمی نے فرمایا:
”ضعیفٌ“
(مجمع الزوائد : ٣١٨/٥)

❀اس سند میں ایک راوی علی بن عطا بھی ہے جو مجہول الحال ہے۔

قارئین کرام! ہم نے اللہ رب العزت سے ڈرتے ہوئے پوری دیانتداری اور ذمہ داری سے اس روایت پر ”ضعیفٌ“ کا حکم لگایا ہے۔

مجھے اس وقت بہت زیادہ حیرت ہوئی جب ایک صاحب کی تحریر پر نظر پڑی جو انھوں نے بڑے بل پیچ کھا کر لکھی کہ ’’اس حدیث کو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر ضعیف ثابت کرنے والے احباب کی خدمت میں بضد گزارش ہے کہ آپ پریشان نہ ہوں اس امت کے گنہگاروں کو اس طرح کے وظائف سے دور نہ کریں۔“
(ترجمان الخطیب ، ص : ۱۰۱)

حالانکہ یہی صاحب کتاب کے شروع میں خیر خواہی کا سبق دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’کسی جماعت کسی تنظیم اور کسی شخصیت کے متعلق رائے قائم کرتے وقت حد درجہ احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ تہمت اور جھوٹ نا قابل معافی جرم ہیں۔“
(ترجمان الخطیب ،ص:۵۳،۵۲)
اسے کہتے ہیں: ”دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت‘‘۔

کیا آنجناب نے خودان محدثین، محققین اور علماء کے بارے میں جو اس روایت کو ضعیف کہتے ہیں ’’ایڑی چوٹی کے زور‘‘ کا فتویٰ صادر کرکے ’’حد درجہ احتیاط سے کام لیا ہے‘‘؟
کیا یہ صاحب نہیں جانتے کہ ان کے فتویٰ کی زد میں کون کون آتا ہے؟
تو ملاحظہ کیجیے:
➊امام ابو حاتمؒ نے فرمایا:
’’هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَر‘‘
(علل الحديث : ۲۰۳۸)

➋امام ترمذیؒ نے فرمایا:
’’هَذَا حَدِيثُ غَرِيبٌ “
(سنن الترمذي: ٣٤٢٨)

❀امام علی بن مدینیؒ نے فرمایا:
’’هَذَا حَدِيثُ مُنْكَرُ‘‘
(مسند الفاروق لابن كثير : ٢/ ٦٤٢)

➌حافظ ابن قیمؒ نے فرمایا:
’’فَهَذَا الْحَدِيثُ مَعْلُولٌ أَعَلَّهُ أَئِمَّةُ الْحَدِيثِ‘‘
(المنار المنيف، ص ١٤١)

ہم پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا ان جلیل القدر محدثین نے’’ ایڑی چوٹی کا زور‘‘ لگایا ہے؟ یا یہ ’’امت کے گنہگاروں‘‘ کو اس طرح کے وظائف سے دور کر رہے ہیں؟
یادر ہے کہ تعصب اور ہٹ دھرمی میں علم سے کوری بات کسی بھی شخص کو لائق نہیں۔ صحیح اسناد کے ساتھ سینکڑوں وظائف ہیں جو بہت سی فضیلتوں کے حامل بھی ہیں تو پھر امت کے گنہگاروں کو ضعیف اور غیر ثابت روایات ہی کی ترغیب کیوں؟
(۱۸/ مئی ۲۰۱۴ء)

وما علينا الا البلاغ

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!