باجماعت نماز کا پڑھنا
مسجد میں جا کر باجماعت نماز ادا کرنے کے حکم میں اختلاف ہے۔
(مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) سنت مؤکدہ ہے۔
(شافعیؒ) فرض کفایہ ہے۔
(اہل ظاہر ، احمدؒ) فرض عین ہے۔
[تحفة الأحوذى: 659/1 ، نيل الأوطار: 366/2 ، المهذب: 93/1 ، اللباب: 80/1 ، بداية المجتهد: 136/1 ، المجموع: 88/4 ، مغنى المحتاج: 229/1 ، المغنى: 176/2]
(شوکانیؒ) مسجد میں باجماعت نماز ادا کرنا سنت موکدہ ہے۔
[السيل الجرار: 245/1]
(راجع) اگر کوئی شرعی عذر رکاوٹ نہ ہو تو ہر آذان سننے والے مرد پر مسجد میں حاضر ہو کر باجماعت نماز ادا کرنا واجب ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ : وَارُكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [البقرة: 43]
”اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔“
ایک اور آیت میں فرمایا کہ : وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلاةَ فَلْتَقمُ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ [النساء: 102]
”جب تم ان میں ہو اور ان کے لیے نماز کھڑی کرو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ اپنے ہتھیار لیے کھڑی ہو ۔“
جب حالت خوف میں باجماعت نماز کا حکم (یعنی وجوب ) ہے تو امن میں بالا ولی واجب ہے۔
[تمام المنة: ص/ 276]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو نماز پڑھانے کے لیے کہوں:
ثم أخالف إلى رجال لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيو تهم
”پھر میں خود ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں شریک نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو جلا ڈالوں ۔“
[بخارى: 644 ، كتاب الأذان: باب وجوب صلاة الجماعة ، مسلم: 651 ، موطا: 129/1 ، أبو داود: 548 ، ابن ماجة: 791 ، ترمذي: 217 ، نسائي: 107/2 ، ابن خزيمة: 1481 ، أبو عوانة: 5/2 ، دارمي: 292/1]
مسند احمد کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر یہ بات نہ ہوتی کہ ان کے گھروں میں عورتیں اور بچے ہیں تو میں ان کے گھروں کو جلا ڈالتا ۔ “
[أحمد: 367/2]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک اندھے آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھر میں نماز ادا کرنے کی اجازت طلب کی (کیونکہ اسے مسجد تک لانے والا کوئی دوسرا موجود نہیں تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ : هل تسمع النداء….. ”کیا تم آذان سنتے ہو؟“ اس نے کہا ہاں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاجب ”تو پھر اس کا جواب دو (یعنی مسجد میں حاضر ہو کر باجماعت نماز ادا کرو)۔“
[مسلم: 653 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب يجب إتيان المسجد على من سمع النداء ، نسائي: 109/2 ، أبو عوانة: 6/2 ، بيهقى: 57/3]
➍ اسی معنی کی حدیث حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے ۔
[حسن: صحيح أبو داود: 516 ، كتاب الصلاة: باب فى التشديد فى ترك الجماعة ، أبو داود: 552 ، ابن ماجة: 792 ، حاكم: 247/1 ، أحمد: 423/3]
➎ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من سمع النداء فلم يات فلا صلاة له إلا من عذر
”جو شخص آذان سنے پھر (باجماعت ) نماز ادا نہ کرے تو اس کی کوئی نماز نہیں اِلا کہ کوئی عذر رکاوٹ بن گیا ہو۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 645 ، كتاب المساجد والجماعات: باب التغليظ فى التخلف عن الجماعة ، إرواء الغليل: 337/2 ، تمام المنة: ص / 276 ، ابن ماجة: 793 ، أبو داود: 551 ، دارقطني: 420/1 ، بيهقي: 75/3]
➏ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
لقد رأيتنا وما يتخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق
”ہمارے مشاہدے کی بات ہے کہ باجماعت نماز سے صرف ایسا منافق ہی پیچھے رہتا تھا جس کا نفاق معلوم ہوتا تھا ۔“
حتی کہ اگر کوئی بیمار ہوتا تو دو آدمیوں کے درمیان سہارا لے کر چلتا اور باجماعت نماز میں شریک ہوتا۔
[مسلم: 654 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب صلاة الجماعة من سنن الهدى ، أبو داود: 550 ، نسائي: 108/2 ، ابن ماجة: 777 ، أحمد: 382/1 ، ابن خزيمة: 1483]
➐ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبر كم
”جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی ایک آذان کہے اور جو تم میں سب سے بڑا ہے امامت کرائے ۔ “
[بخارى: 628 ، كتاب الأذان: باب من قال ليؤذن فى السفر مؤذن واحد ، مسلم: 1080 ، بيهقي: 385/1 ، دارقطني: 273/1 ، نسائي: 912 ، أبو داود: 589]
➒ باجماعت نماز ادا کرنا واجب تھا یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں بھی مسجد میں آ کر نماز پڑھائی۔
[بخاري: 713 ، كتاب الأذان: باب الرجل يأتم بالإمام ويأتم الناس بالمأموم ، مسلم: 418 ، سبل السلام: 573/2]
➑ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من ثلثة فى قرية ولا بدو ولا تقام فيهم الصلاة إلا وقد استحوذ عليهم الشيطان فعليك بالجماعة
”کسی بھی بستی یا دیہات میں تین آدمی ہوں اور وہ باجماعت نماز ادا نہ کریں تو شیطان ان پر حملہ کر دیتا ہے اس لیے جماعت کو لازم پکڑو ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 511 ، كتاب الصلاة: باب فى التشديد فى ترك الجماعة ، أبو داود: 547 ، أحمد: 196/5 ، حاكم: 211/1 ، ابن حبان: 2098]
اکثر ائمہ کرام بھی اسی کے قائل ہیں جن میں سے چند ایک کا ذکر حسب ذیل ہے:
(بخاریؒ) انہوں نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے کہ : باب وجوب صلاة الجماعة ”باجماعت نماز کے وجوب کا بیان۔“
[بخاري: 644 ، كتاب الأذان]
(ابن تیمیهؒ ) باجماعت نماز ادا کرنا فرض عین یا فرض کفایہ ہے۔
[الفتاوى الكبرى: 125/1]
(ابن قیمؒ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد: ”کہ میں نے باجماعت نماز سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالنے کا ارادہ کیا ہے ۔“ یقیناً کسی صغیرہ گناہ کے مرتکب کے لیے نہیں ہوسکتا تو ثابت ہوا کہ باجماعت نماز چھوڑنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
[القول المبين فى أخطاء المصلين: ص/ 280]
(ابن حجرؒ ) باجماعت نماز ادا کرنا فرض عین ہے کیونکہ اگر سنت ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے تارک کو جلا ڈالنے کے ساتھ نہ ڈراتے ۔
[فتح البارى: 5/3]
(ابن حزمؒ ) آذان سننے والے مرد کی فرض نماز صرف مسجد میں امام کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔
[المحلى بالآثار: 104/3]
(امیر صنعانیؒ ) آذان سننے والے پر باجماعت نماز پڑھنا واجب ہے۔
[سبل السلام: 556/2]
(علامہ عینیؒ) اگر کسی کی والدہ اسے کسی خطرے کے باعث باجماعت نماز عشاء پڑھنے سے روکے تو وہ اپنی والدہ کی اطاعت نہ کرے۔
[عمدة القارى: 159/5]
(البانیؒ) باجماعت نماز پڑھنا واجب ہے۔
[تمام المنة: ص/275]
(ابن بازؒ) مکلّف مرد پر واجب ہے کہ پانچوں نمازیں مسجد میں حاضر ہو کر اپنے بھائیوں کے ساتھ ادا کرے۔
[فتاوي ابن باز مترجم: 95/1]
جن احادیث میں باجماعت نماز ادا کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے مثلاً حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاة الجماعة تفضل على صلاة الفذ بسبع وعشرين درجه
”باجماعت نماز اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس (27) درجے زیادہ افضل ہے۔“
[بخارى: 645 ، كتاب الأذان: باب فضل صلاة الجماعة ، مسلم: 249 ، أبو عوانة: 312 ، بيهقي: 59/3 ، دارمي: 393/1 ، ترمذى: 215 ، ابن ماجة: 789 ، موطا: 129/1]
اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ منفرد کی نماز صحیح ہے اس لیے باجماعت نماز ضروری نہیں ہے بلکہ واجب تو ہمیشہ غیر واجب سے اجر میں زیادہ ہی ہوتا ہے ۔
[تمام المنة: ص/ 277]
اور جس حدیث میں ہے کہ دو آدمی اپنے گھر میں نماز پڑھ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم نے اپنے گھر میں نماز پڑھ لی تھی تو دوبارہ پڑھ لیتے اور یہ تمہارے لیے نفل بن جاتی۔
[أحمد: 160/4 ، ترمذي: 219 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الرجل يصلى وحده ثم يدرك الجماعة]
وہ بھی وجوب کے منافی نہیں ہے کیونکہ باجماعت نماز ، آذان سننے والے پر واجب ہے ، اور اس حدیث میں یہ احتمال ہے کہ شاید انہوں نے آذان ہی نہ سنی ہو۔ اس لیے دیگر صریح روایات کے مقابلے میں اس محتمل روایت کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
عورتوں پر مسجد میں حاضر ہو کر باجماعت نماز ادا کرنا فرض نہیں ہے بلکہ ان کے لیے گھر میں نماز ادا کرنا ہی افضل ہے البتہ اگر وہ مسجد میں آ کر نماز پڑھنا چاہیں تو اس کا جواز موجود ہے۔
[بخاري: 865 ، 869 ، مسلم: 444 ، أحمد: 301/6 ، طبراني كبير: 709]
اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے آئندہ متفرقات میں دیکھیے ۔
کم از کم جماعت دو آدمیوں کے ساتھ بھی منعقد ہو جاتی ہے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی :
فقمت عن يساره فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم برأسي من وراء فجعلني عن يمينه
”میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا ۔“
[بخارى: 859 ، كتاب الأذان: باب وضوء الصبيان ، مسلم: 763 ، أبو داود: 610 ، نسائي: 842 ، ترمذي: 232 ، موطا: 12131 ، أبو عوانة: 315/2 ، ابن خزيمة: 1533 ، عبد الرزاق: 4708 ، بيهقي: 7/3]
(جمہور) دو افراد کے ساتھ جماعت منعقد ہو جاتی ہے۔
(مالکیہ ، حنابلہ) اگر دونوں میں سے ایک بچہ ہو تو جماعت درست نہیں کیونکہ بچے کو غیر مکلّف قرار دیا گیا ہے: رفع القلم عن ثلثه….. عن الصبي حتى يحتلم
[سبل السلام: 587/2 ، كشاف القناع: 532/1 ، المغنى: 178/1 ، الشرح الكبير: 321/1]
(شوکانیؒ ) حدیث رفع القلم …. سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بچے کی نماز یا اس کے ساتھ جماعت کا انعقاد درست نہیں۔
[نيل الأوطار: 393/2]
(نوویؒ) بعض شافعیہ سے مروی ہے کہ مقتدی کو امام سے کچھ ہٹ کے کھڑا ہونا چاہیے۔
[المجموع: 292/4]
شافعیہ کی اس بات کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ اس کے برخلاف موطا کی ایک روایت میں مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو اپنے دائیں جانب برابر کھڑا کیا۔
[مؤطا: 154/1]
(ابراہیم نخعیؒ) امام کے ساتھ اگر ایک مقتدی ہو تو اسے بھی امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے لیکن بعد ازاں اگر کسی اور کے آنے سے پہلے امام رکوع میں چلا جائے تو مقتدی امام کے دائیں جانب کھڑا ہو جائے ۔
[موسوعة فقه إبراهيم النخعى: 659/2]
یه قول گذشته حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کے بالکل مخالف ہے اس لیے کسی طور پر بھی قابل حجت نہیں۔
اکیلے مرد کی اکیلی عورت کے ساتھ جماعت درست ہے
➊ امام بخاریؒ نقل فرماتے ہیں کہ :
كانت عائشة يؤمها عبدها ذكوان من المصحف
”حضرت عائشه رضی اللہ عنہا کا غلام ”ذکوان“ مصحف سے (دیکھ کر ) ان کی امامت کراتا تھا۔“
[بخاري: 292 ، كتاب الأذان]
➋ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أيقظ الرجل أهله من الليل فصليا أو صلى ركعتين جميعا كتبا فى الذاكرين والذاكرات
”جب کوئی آدمی رات کو اپنی بیوی کو بیدار کرتا ہے پھر وہ دونوں نماز پڑھتے ہیں یا دونوں اکٹھے دو رکعت نماز پڑھتے ہیں تو وہ ذکر کرنے والے مردوں اور ذکر کرنے والی عورتوں میں لکھ دیے جاتے ہیں ۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 1161 ، أبو داود: 1309 ، نسائي: 413/1 ، ابن ماجة: 1335 ، ابن حبان: 2568 ، حاكم: 31631]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا رجع من المسجد صلى بنا
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد سے لوٹتے تھے تو ہمیں نماز پڑھاتے تھے ۔“
[مستخرج الإسماعيلى كما فى تلخيص الحبير: 38/2]
(شوکانیؒ) مرد اکیلی عورت کو امامت کرا سکتا ہے اس کے برخلاف کوئی دلیل موجود نہیں ۔
[السيل الجرار: 250/1]
(صدیق حسن خانؒ ) جو اس کو صحیح تصور نہیں کرتا اس پر لازم ہے کہ دلیل پیش کرے۔
[الروضة الندية: 312/1]
تا ہم یہ یاد رہے کہ عورت مرد کی طرح امام کے ساتھ نہیں کھڑی ہو گی بلکہ امام کے پیچھے کھڑی ہو گی کیونکہ اکیلی عورت بھی مکمل صف کے حکم میں ہوتی ہے جیسا کہ امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے کہ : المرأة وحدها تكون صفام ”اکیلی عورت صف کے حکم میں ہوتی ہے ۔“ اور اس کے تحت یہ حدیث نقل کی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
صليت أنا ويتيم فى بيتنا خلف النبى صلى الله عليه وسلم وأمي أم سليم خلفنا
”میں نے اور ایک یتیم بچے نے اپنے گھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی جبکہ میری والدہ ”ام سلیم“ ہمارے پیچھے (اکیلی صف بنائے ) کھڑی تھیں ۔“
[بخاري: 728 ، كتاب الأذان ، مسلم: 658 ، أبو داود: 612 ، ترمذي: 234 ، نسائي: 85/2]
جب نمازی زیادہ ہوں گے تو ثواب بھی زیادہ ہوگا
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاة الرجل مع الرجل أزكى من صلاته وحده وصلاته مع الرجلين أزكى من صلاته مع الرجل وما كان أكثر فهو أحب إلى الله
”ایک آدمی کا کسی دوسرے آدمی کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے کہیں زیادہ پاکیزہ اور اجر و ثواب کا باعث ہے اور دو آدمیوں کے ساتھ مل کر پڑھنا (پہلی صورت سے بھی ) زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ اسی طرح جتنے افراد زیادہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 518 ، كتاب الصلاة: باب فى فضل صلاة الجماعة ، أحمد: 140/5 ، أبو داود: 554 ، نسائي: 843 ، تلخيص الحبير: 26/2]
غیر افضل شخص کے پیچھے بھی نماز درست ہے
➊ کیونکہ غیر افضل شخص کے پیچھے نماز درست نہ ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے جیسا کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
فلما سلم عبد الرحمن قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يتم صلاته
”جب حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سلام پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور اپنی نماز مکمل کرنے لگے۔“
[مسلم: 274 ، كتاب الصلاة: باب تقديم الجماعة من يصلى بهم إذا تأخر الإمام ، مؤطا: 35/1 ، أحمد: 249/4 ، أبو داود: 149 ، أبو عوانة: 214/2 ، عبد الرزاق: 191/1]
کوئی شخص تقوی و پرہیزگاری میں کتنا ہی بلند ہو اسلام نے امامت میں اس کا اعتبار نہیں کیا بلکہ افضلیت اسے دی جو قراءت میں افضل ہو ، سنت کا عالم ہو ، ہجرت میں مقدم ہو یا سب سے زیادہ عمر رسیدہ ہو ۔
[مسلم: 673]
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما کو دو مرتبہ مدینہ کا والی بنایا گیا اور وہ اندھے ہونے کے باوجود لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے۔
[حسن: صحيح أبو داود: 555 ، كتاب الصلاة: باب إمامة الأعمى ، أبو داود: 595]
(شوکانیؒ ) ہر ایسا شخص جس کی اپنی نماز ہو جاتی ہے (اس کے پیچھے ) اس کے علاوہ کسی دوسرے کی نماز بھی ہو جائے گی۔
[نيل الأوطار: 423/2]
(صدیق حسن خانؒ) فی الحقیقت نماز ایسی عبادت ہے جسے ہر نمازی کے پیچھے ادا کرنا صحیح ہے بشرطیکہ وہ اس کے ارکان واذکار کو اسی طرح سے بجالائے جس سے نماز کافی ہو جائے اگرچہ وہ شخص گنہگار ہو یا بہت زیادہ متقی و پرہیز گار نہ ہو۔
[الروضة الندية: 309/1]
دو ضعیف روایات:
➊ صلوا خلف كل برو فاجر ….. ”ہر نیک اور گنہگار کے پیچھے نماز پڑھ لو۔“
[ضعيف: التعليقات الرضية على الروضة الندية: 33031 ، دار قطني: 57/2 ، اس كي سند ميں حارث راوي ضعيف هے۔ شيخ محمد صجی حسن حلاق نے بهي اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على السيل الجرار: 523/1]
➋ صلوا خلف من قال لا إله إلا الله ”جس نے کلمہ لا اله الا الله پڑھا ہے اس کے پیچھے نماز پرھ لو۔“
[ضعيف: تلخيص الحبير: 35/2 ، مختصر البدر المنير: 474 ، دارقطني: 56/2]
لیکن بہتر یہ ہے کہ امام قابل احترام لوگوں میں سے ہو
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اجعلوا ائمتكم خيار كم فإنهم وفد كم فيما بينكم وبين ربكم
”ایسے لوگوں کو امام بناؤ جو تم میں معزز ہوں کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان قاصد کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
[ضعيف: التعليقات الرضية على الروضة الندية: 329/1 ، دارقطني: 87/2 ، بيهقي: 90/3 ، شيخ محمد صجی حسن حلاق نے اسے ضعيف كها هے۔ التعليق على السبل الجرار: 523/1 ، اس كي سند ميں سلام بن سليمان المدائني راوي ضعيف ہے۔ ميزان الاعتدال: 178/2]
➋ امام حاکمؒ نے حضرت مرثد غنوی رضی اللہ عنہ کے ترجمے (یعنی حالات زندگی ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ :
ان سركم أن تقبل صلاتكم فليو مكم خياركم فإنهم وفدكم فيما بينكم وبين ربكم
”اگر تم اس بات پر خوش ہو کہ تمہاری نماز قبول کی جائے تو اپنے امام ایسے لوگوں کو بناؤ جو تم میں معزز و قابل احترام ہوں کیونکہ وہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان قاصد کی حیثیت رکھتے ہیں۔
[ضعيف: حاكم 222/3 ، طبراني كبير: 777/20 ، دارقطني: 88/2 ، اس كي سند ميں یحیٰی بن يعلي راوي ضعيف هے۔ المجمع للهيثمي: 67/2 ، ميزان الاعتدال: 229/7]
اگرچہ ان روایات میں ضعف ہے لیکن دیگر صحیح روایات سے ثابت ہے کہ امام لوگوں کا ناپسندیدہ شخص نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاثة لا يقبل الله منهم صلاة ، من تقدم قوما وهم له كارهون
”تین آدمیوں سے اللہ تعالٰی نماز قبول نہیں فرماتے ، ایک ایسا شخص جو (امامت کے لیے ) کسی قوم کے آگے ہوتا ہے لیکن وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 554 ، كتاب الصلاة: باب الرجل يوم القوم وهم له كارهون ، أبو داود: 593]
مرد عورتوں کی امامت کر سکتا ہے جبکہ عورت مردوں کی نہیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
صليت أنا ويتيمم فى بيتنا خلف النبى صلى الله عليه وسلم وأمي أم سليم خلفنا
”میں نے اور ایک یتیم بچے نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اپنے گھر میں نماز پڑھی اور میری والدہ ”ام سلیم“ (نماز میں ) ہمارے پیچھے کھڑی تھیں ۔“
[بخاري: 727 ، كتاب الأذان: باب المرأة وحدها تكون صفا ، مسلم: 658 ، أبو داود: 212 ، ترمذي: 234]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كان النبى صلى الله عليه وسلم إذا رجع من المسجد صلى بنا
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد سے واپس لوٹتے تو ہمیں نماز پڑھاتے ۔“
[أخرجه الإسماعيلي كما فى تلخيص الحبير: 38/2]
عورت کی امامت مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر صحیح نہیں ۔
➊ شریعت اسلامیہ میں عورت کو مردوں کی امام بنانے کا کہیں ثبوت نہیں۔
➋ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
آخروهن من حيث أخرهم الله
”ان خواتین کو اس جگہ سے مؤخر رکھو جہاں سے اللہ تعالیٰ نے انہیں مؤخر رکھا ہے۔“
[عبد الرزاق: 5115 ، مجمع الزوائد: 38/2 ، نصب الراية: 36/1 ، الدراية: 171/1]
➌ ارشاد باری تعالٰی ہے کہ : الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ [النساء: 34]
”مرد عورتوں پر حکمران ہیں۔“
➍ عورتوں کا دین و عقل دونوں ناقص ہیں۔
[بخاري: 293 ، كتاب الحيض: باب ترك الحائض الصوم]
➎ حدیث نبوی ہے کہ :
لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة
”وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جو اپنے معاملات کسی عورت کے سپرد کر دے ۔“
[بخاري: 7099 ، كتاب الفتن: باب الفتنة التى تموج كموج البحر ، ترمذي: 2262 ، نسائي: 227/8 ، بيهقي: 90/3 ، شرح السنة: 2486 ، أحمد: 47/5]
(ابن حزمؒ ) عورت کے لیے مردوں کی امامت کرانا جائز نہیں۔
[المحلى بالآثار: 135/3]
(شیخ عبد اللہ بن حمیدؒ ) عورت مردوں کی امامت نہیں کرا سکتی ۔
[فتاوى المرأة المسلمة: 319/1]
فرض پڑھنے والا نفل پڑھنے والے کی اور نفل پڑھنے والا فرض پڑھنے والے کی امامت کرا سکتا ہے
مراد یہ ہے کہ امام فرض پڑھ رہا ہو اور مقتدی نفل ۔
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو آدمیوں سے ارشاد فرمایا جو کہ گھر میں نماز پڑھ کر آئے تھے:
إذا صليتما فى رحالكما ثم أدركتما الإمام ولم يصل فصليا معه فإنها لكم نافلة
”اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے ہو پھر تم امام کو ملے ہو اور امام نے ابھی نماز نہ پڑھائی ہو تو اس کے ساتھ تم بھی نماز پڑھ لو یہ تمہارے لیے نفل ہو جائے گی ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 538 ، أحمد: 160/4 ، ترمذي: 219 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الرجل يصلى وحده ثم يدرك الجماعة ، نسائى: 112/2 ، أبو داود: 575 ، حاكم: 2441 ، ابن خزيمة: 1638]
➋ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
الا رجل يتصدق على هذا فيصلي معه
”کیا کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ نماز پڑھ لے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 537 ، كتاب الصلاة: باب فى الجمع فى المسجد مرتين ، أبو داود: 574 ، ابن خزيمة: 1632]
یعنی امام نفل پڑھا رہا ہو اور مقتدی فرض پڑھ رہا ہو۔
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان معاذا كان يصلى مع النبى صلى الله عليه وسلم عشاء الآخرة ثم يرجع إلى قومه فيصلى بهم تلك الصلاة
”بلاشبہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء پڑھتے تھے پھر اپنی قوم کی طرف لوٹتے تو انہیں یہی نماز پڑھاتے تھے ۔“
[بخاري: 700 ، كتاب الأذان: باب إذا طول الإمام وكان للرجل حاجة فخرج فصلي ، مسلم: 465 ، أبو داود: 790 ، نسائي: 102/2 ، دارمي: 239/1 ، أبو عوانة: 156/2 ، شرح معاني الآثار: 213/1]
➋ نماز خوف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کو دو دو رکعتیں پڑھائیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نماز فرض اور دوسری نفل تھی جبکہ مقتدی دونوں مرتبہ ہی فرض ادا کر رہے تھے جیسا کہ حدیث میں ہے:
فكان للنبي صلى الله عليه وسلم أربع وللقوم ركعتان
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعتیں پڑھیں اور لوگوں نے دو.
[بخارى: 4136 ، كتاب المغازي: باب غزوه ذات الرقاع ، مسلم: 843 ، نسائي: 178/3 ، دارقطني: 61/2]
(ملا علی قاری حنفیؒ) اس حدیث کا ظاہر مذہب شافعی کی تائید میں ہے۔ لیکن اگر ہم اسے تسلیم کر لیں تو نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی اقتداء لازم ہو گی جو کہ ہمارے مذہب میں صحیح نہیں۔
[مرقاة شرح مشكاة: 282/3]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رجع من المسجد صلى بنا
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب مسجد سے واپس لوٹتے تو ہمیں نماز پڑھاتے ۔ “
[أخرجه الإسماعيلي كما فى تلخيص الحبير: 38/2]
(شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(ابو حنیفہؒ ، مالکؒ) نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز درست نہیں کیونکہ امام اور مقتدی کی نیت ایک ہونی چاہیے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ :
لا تختلفوا على إمامكم
”اپنے امام سے اختلاف مت کرو۔“
[كشف الأستار للبزار: 474 ، المجمع: 81/2 ، يه حديث ضعيف هے كيونكه اس كي سند ميں اسماعيل بن مسلم بهي راوي ضعيف هے. تقريب التهذيب: ص/144]
(ابن حزمؒ ) امام نفل پڑھے اور مقتدی فرض تو یہ جائز ہے۔
[المحلى بالآثار: 141/3]
(شوکانیؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔
[نيل الأوطار: 428/2 ، السيل الجرار: 253/1]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[الروضة الندية: 313/1]
نفلوں کی جماعت یعنی نفل کے پیچھے نفل
نفلوں کی جماعت کرانا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔
➊ قیام رمضان یعنی نماز تراویح کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کرائی۔
[بخاري: 1129]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باجماعت قيام الليل کیا ۔
[بخاري: 859]
➌ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے رات کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کی ۔
[مسلم: 772]
➍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی (نفل نماز میں ) امامت کرائی ۔
[بخاري: 860 ، مسلم: 658]
➎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خسوف باجماعت ادا کی ۔
[بخاري: 1044 ، مسلم: 901]
➏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء کی جماعت کرائی۔
[مسلم: 797 ، بخاري: 1015 ، أبو داود: 1173]
نماز باطل کر دینے والے کاموں کے علاوہ ہر کام میں امام کی پیروی واجب ہے
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما جعل الإمام ليو تم به فإذا كبر فكبروا ولا تكبروا حتى يكبر وإذا ركع فاركعوا ولا تركعوا حتى يركع وإذا قال سمع الله لمن حمده فقولوا اللهم ربنا لك الحمد وإذا سجد فاسجدوا ولا تسجدوا حتى يسجد وإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا صلى قاعدا فصلوا قعوداً أجمعين
” امام اسی لیے مقرر کیا گیا ہے تا کہ اس کی اقتداء کی جائے لٰہذا جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور اس کے تکبیر کہنے سے پہلے مت تکبیر کہو ، اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو اور اس کے رکوع کرنے سے پہلے مت رکوع کرو ، اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم ربنا لك الحمد کہو ، اور جب وہ سجده کرے تو تم سجدہ کرو اور اس کے سجدہ کرنے سے پہلے سجدہ مت کرو ، اور جب وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھائے تو تم کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم سب بھی بیٹھ کر نماز پڑھو ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 563 ، كتاب الصلاة: باب الإمام يصلى من قعود ، أبو داود: 603 ، ابن ماجة؛ 846 ، أحمد: 314/2 ، بخاري: 722 ، مسلم: 414 ، نسائي: 196/2]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اما يخشى الذى يرفع رأسه قبل الإمام أن يحول الله رأسه رأس حمار
” کیا ایسا شخص جو امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتا ہے ایسی بات سے ڈرتا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا سر گدھے کا سر نہ بنا دے۔“
[بخارى: 691 ، كتاب الأذان: باب إثم ممن رفع رأسه قبل الإمام ، مسلم: 427 ، أبو عوانة: 137/2 ، أبو داود: 623 ، نسائي: 96/1 ، ترمذي: 582 ، ابن ماجة: 961 ، دارمي: 302/1 ، أحمد: 260/2]
یاد رہے کہ اگر امام کوئی ایسا فعل کرتا ہے جو نماز کو باطل کر دینے والا ہے مثلاََ کلام وغیرہ یا ایسے افعال اختیار کرتا ہے جن سے انسان حالت نماز سے خارج ہو جاتا ہے مثلاََ لیٹ جانا ، بہت زیادہ دائیں بائیں دیکھنا ، یا چلنا شروع کر دینا وغیرہ تو ایسے کسی بھی فعل میں امام کی پیروی نہیں کی جائے گی۔
(جمہور) اسی کے قائل ہیں ۔
[المسوي: 173/1]
اگر مریض امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو کیا تندرست مقتدی بھی
بیٹھ کر ہی نماز پڑھے گا؟ اس میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔
(احمدؒ ، اسحاقؒ ) ایسی صورت میں مقتدی بھی بیٹھ کر نماز ادا کریں گے۔
(شافعیہ ، احناف ، اہل ظاہر ) مقتدی پیچھے کھڑے ہو کر بھی نماز ادا کر سکتے ہیں۔
(مالکؒ ، ابن قاسمؒ ) بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کی امامت تو جائز ہے لیکن اگر کوئی اس کے پیچھے بیٹھ کر یا کھڑا ہو کر نماز ادا کرے گا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی ۔
[بداية المجتهد: 152/1 ، المغنى: 48/2 ، التاج المذهب: 111/1 ، الخرش على مختصر سيدي خليل: 24/2 ، المجموع: 264/4]
(البانیؒ) مقتدی بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے بیٹھ کر ہی نماز پڑھیں گے جیسا کہ واضح نص اسی کا تقاضا کرتی ہے:
إذا صلى جالسا فصلوا جلو سا
”جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو ۔ “
اور مرض الموت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹھ کر امامت کرانا اور لوگوں کا (پیچھے) کھڑے ہو کر نماز ادا کرنا مختلف روایات میں مختلف طرح سے ثابت ہے۔ بعض میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم امام تھے ۔
[بخاري: 683]
بعض میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ امام تھے۔
[ترمذي: 362 – 363 ، ابن خزيمة: 1620 ، أحمد: 159/6]
اور بعض میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ابتدائے نماز میں لوگ کھڑے تھے پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اشارے پر بیٹھ گئے ۔
[مسلم: 413]
اور (اس عمل کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) خصوصیت کی دلیل ضعیف روایت ہے۔ وہ روایت کہ جس میں ہے:
لا يؤمن أحدكم بعدى قاعدا قوما قيام
”تم میں سے کوئی بھی میرے بعد اس صورت میں بیٹھ کر امامت نہ کرائے کہ لوگ پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہوں ۔ “
[ضعيف: نصب الراية: 49/2 ، دارقطني: 398/1 ، بيهقي: 80/3 ، اس كي سند ميں جابر جعفي راوي ضعيف هے۔ والكامل لابن عدى: 537/2 ، الجرح والتعديل: 497/2 ، المجروحين: 208/1]
اس لیے مقتدیوں پر لازم ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز ادا کریں ۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية للألباني: 335/1]
جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔
➊ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ
[ابن أبى شيبة: 326/2 ، الأوسط لابن المنذر: 206/4 ، حافظ ابن حجرؒ نے اس كي سند كو صحيح كها هے۔ فتح الباري: 176/2]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ
[ابن ابى شيبة: 326/2 ، الأوسط لابن المنذر: 206/4 ، 2043 باسناد صحيح]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی کے مطابق فتوی دیا ۔
[ابن أبى شيبة: 326/2 ، حافظ ابن حجرؒ نے اس كي سند كو صحيح كها هے۔ فتح الباري: 176/2]
➍ حضرت قیس بن قہد انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عہد رسالت میں ان کا امام بیمار ہو گیا تو:
فكان يؤمنا جالسا ونحن جلوس
”وہ بیٹھ کر ہماری امامت کراتا تھا اور ہم بھی بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے۔“
[عبد الرزاق: 462/2 ، 4084 ، شيخ محمد صجی حسن حلاق نے اس كي سند كو صحيح كها هے ۔ التعليق على مسبل السلام: 82/3]
جن حضرات کے نزدیک مقتدی بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے کھڑے ہو کر بھی نماز پڑھ سکتے ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
فكان أبو بكر يصلى بصلاة رسول الله والناس يصلون بصلاة أبى بكر
”حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتداء میں (جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری تھے ) نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ (پیچھے کھڑے ہو کر) حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے۔“
[بخارى: 683 ، كتاب الأذان: باب من قام إلى جنب الإمام لعلة ، مسلم: 418]
اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے امام شوکانیؒ کی کتاب ”نيل الأوطار“ اور حافظ عبد الرحمن مبارکپوریؒ کی کتاب ”تحفة الأحوذی“ کا مطالعہ کیجیے۔
(راجح) دونوں طرح جائز ہے۔ (یعنی بیٹھ کر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر دونوں طرح نماز پڑھی جا سکتی ہے) البتہ افضل بیٹھ کر پڑھنا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے اور کھڑے ہو کر اس لیے جائز ہے کیونکہ مرض الموت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر امامت کرائی اور دائیں جانب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر (آپ کی اقتداء میں) نماز ادا کی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو مقرر رکھا (یعنی اس سے منع نہیں فرمایا ) ۔
[الإحكام فى أصول الأحكام ، لابن حزم: 469/1]
آدمی ایسے لوگوں کی امامت نہ کرائے جو اسے ناپسند کرتے ہوں
➊ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاثة لا يقبل الله منهم صلاة ، من تقدم قوما وهم له كارهون
”تین آدمیوں کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتے ، پہلا وہ شخص جو (امامت کے لیے ) کسی قوم کے آگے بڑھے لیکن وہ لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 554 ، كتاب الصلاة: باب الرجل يؤم القوم وهم له كارهون ، أبو داود: 593 ، ابن ماجة: 970]
➋ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ثلاثة لا تجاوز صلاتهم آذانهم و إمام قوم وهم له كارهون ”تین آدمی ایسے ہیں جن کی نماز ان کے کانوں سے تجاوز نہیں کرتی ان میں سے ایک لوگوں کا ایسا امام ہے جسے وہ ناپسند کرتے ہیں ۔“
[حسن: صحيح ترمذي: 295 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فيمن أم قوما وهم له كارهون ، المشكاة: 1122 ، ترمذي: 360 ، ابن أبى شيبة: 358/1 ، بيهقي: 128/3 ، تحفة الأشراف: 1584/4 ، امام ترمذيؒ نے اس حديث كو حسن غريب كها هے۔ جبكه امام بيهقيؒ نے اسے ضعيف كها هے۔ اور امام نوويؒ نے امام ترمذيؒ كے قول كو ترجيح دي هے۔ خلاصة الأحكام ، للنووى: 704/2]
➌ حضرت عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ بات کہی جاتی تھی:
أشد الناس عذابا اثنان: امرأة عصت زوجها ، وإمام قوم و هم له كارهون
”لوگوں میں سے جنہیں سب سے سخت عذاب دیا جائے گا ، دو ہیں: (ایک) ایسی عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہے اور (دوسرا) وہ امام جسے مقتدی ناپسند کرتے ہیں ۔“
[صحيح: صحيح ترمذي: 294 ، أيضا ، ترمذى: 359]
امام کمزوروں کا خیال کرتے ہوئے نماز پڑھائے
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إذا أم أحدكم الناس فليخفف فإن فيهم الصغير والكبير والضعيف وذا الحاجة فإذا صلى وحده فليصل كيف شاء ”جب تم میں سے کوئی لوگوں کی امامت کرائے تو اسے قراءت میں تخفیف کرنی چاہیے اس لیے کہ مقتدیوں میں بچے ، بوڑھے ، کمزور اور حاجت مند لوگ بھی ہوتے ہیں ہاں جب تنہا نماز پڑھے تو پھر جس طرح چاہے پڑھے ۔“
[بخاري: 703 ، كتاب الآذان باب إذا صلى لنفسه فليطول ما شاء ، مسلم: 467 ، أبو داود: 794 – 795 ، ترمذي: 236 ، نسائي: 823 ، مؤطا: 134/1 ، أحمد: 256/2 ، شرح السنة: 305/2]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز کو لمبا کرنا چاہتا ہوں لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیونکہ اس کے رونے سے اس کی ماں کی سخت پریشانی و تکلیف کو میں جانتا ہوں ۔“
[بخاري: 709 – 710 ، كتاب الأذان: باب من أخف الصلاة عند بكاء الصبى ، مسلم: 470 ، ابن ماجة: 989 ، أحمد: 109/3 ، ابن خزيمة: 1610 ، ترمذي: 376]
➌ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل نماز پڑھانے سے ان الفاظ میں روكا: أتريد أن تكون يا معاذ فتانا ”اے معاذ! کیا تو نمازیوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے ۔“
[بخارى: 705 ، كتاب الأذان: باب من شكا إمامه إذا طول ، مسلم: 465]
تخفیف کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بغیر خشوع و خضوع کے ، اطمینان و اعتدال کا لحاظ نہ رکھتے ہوئے جلد از جلد نماز کو سمیٹ لیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسيئي الصلاة نے اس طرح نماز پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا: ارجع فصل فإنك لم تصل ”واپس جا کر دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ بلاشبہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔“
[بخاري: 757 ، مسلم: 397 ، أبو داود: 856 ، ترمذي: 303 ، ابن ماجة: 1060 ، أحمد: 437/2]
ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے رکوع و سجود میں اپنی کمر سیدھی نہ کی اس کی نماز کفایت نہیں کرے گی ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 761 ، أبو داود: 855 ، ترمذي: 265 ، نسائي: 183/2 ، ابن ماجة: 870 ، أحمد: 112/4 ، حميدي: 454 ، عبد الرزاق: 2856 ، ابن خزيمة: 300/1 ، بيهقي: 88/2 ، دار قطني: 348/1]
اس لیے نماز میں مختصر قراءت یا مختصر اذکار کے ذریعے طوالت تو کم کرنی چاہیے لیکن اس کی ادائیگی میں مکمل خشوع و خضوع
اور اطمینان و اعتدال کا لحاظ رکھنا چاہیے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ كان النبى صلى الله عليه وسلم يـوجــز الـصـلاة ويكملها ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر مگر مکمل پڑھا کرتے تھے ۔“
[بخارى: 706 ، كتاب الأذان: باب الإيجاز فى الصلاة وإكمالها ، مسلم: 469 ، ابن ماجة: 985]
امامت کا اولین مستحق حکمران اور پھر گھر کا مالک ہے
➊ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولا يؤمن الرجل الرجل فى سلطانه
”کوئی آدمی کسی آدمی کے دائرہ اقتدار میں امامت نہ کرائے ۔“
اور ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
لا يؤمن الرجل الرجل فى أهله ولا فى سلطانه
”کوئی آدمی کسی آدمی کے گھر میں یا اس کے دائرہ اقتدار میں امامت نہ کرائے ۔“
[مسلم: 673 ، كتاب المساجد و مواضع الصلاة: باب من أحق بالإمامة ، أبو داود: 582 ، ترمذي: 235 ، ابن ماجة: 980 ، أبو عوانة: 35/2 ، دار قطني: 208/1]
➋ ایک اور روایت میں ہے کہ لا يؤم الرجل فى بيته ولا فى سلطانه ”کسی آدمی کے گھر میں یا اس کے دائرہ اقدار میں اس کی امامت نہ کرائی جائے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 542 ، أبو داود: 582]
➌ حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من زار قـومـا فـلايـؤمهم وليؤمهم رجل منهم
”جو شخص کسی قوم کی زیارت کے لیے جائے تو ان کی امامت مت کرائے بلکہ ان میں سے ہی کسی آدمی کو ان کی امامت کرانی چاہیے ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 556 ، كتاب الصلاة: باب إمامة الزائر ، أبو داود: 596 ، ترمذي: 356 ، نسائي: 80/2 ، أحمد: 436/3 ، ابن خزيمة: 1520 ، شرح السنة: 399/2 ، بيهقي: 126/3]
(حافظ ابن تیمیہؒ) مثقی میں رقمطراز ہیں کہ اکثر اہل علم کے نزدیک مالک مکان کی اجازت سے اگر مہمان امامت کراتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إلا بإذنه
”یعنی مالک مکان کی اجازت کے ساتھ زائر کا امامت کرانا درست ہے ۔“
[نيل الأوطار: 415/2 ، تحفة الأحوذي: 353/2]
(ابن عربیؒ) اگر مہمان آدمی اہل علم و فضل لوگوں میں سے ہو تو مالک مکان کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اسے آگے کرے اور اگر دونوں علم و فضل میں برابر ہوں تو بھی حسنِ ادب کا یہی تقاضا ہے کہ اسے ہی امامت کی درخواست کرے۔
[عارضة الأحوذي: 151/2]
پھر جسے قرآن کا زیادہ علم ہو ، پھر جو سنت کا زیادہ عالم ہو اور پھر جو عمر میں بڑا ہو
➊ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كانوا ثلثة فليؤمهم أحدهم واحقهم بالإمامة أقراهم
”جب کہیں تین آدمی ہوں تو ان میں سے ایک امامت کرائے اور ان میں سے سب سے زیادہ امامت کا مستحق وہ ہے جو قرآن کا زیادہ قاری ہو۔“
[مسلم: 672 ، كتاب المساجد و مواضع الصلاة: باب من أحق بالإمامة ، نسائى: 77/2 ، أحمد: 24/3 ، ابن خزيمة: 1508 ، شرح السنة: 399/2 ، بيهقي: 89/3]
➋ حضرت عمر و بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا حضرت الصلاة فليؤذن أحدكم وليؤمكم اكثر كم قرآنا
”جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک آذان کہے اور تم میں سے وہ شخص امامت کرائے جسے قرآن زیادہ یاد ہو۔“
[بخارى: 631 ، كتاب الأذان: باب الأذان للمسافر إذا كانوا جماعة والإقامة كذلك ، مسلم: 674 ، ترمذى: 205 ، ابن ماجة: 979 ، نسائي: 781]
➌ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يؤم القوم أقرأهم لكتاب الله فإن كانوا فى القراءة سواء فأعلمهم بالسنة ، فإن كانوا فى السنة سواء فأقدمهم هجرة ، فإن كانوا فى الهجرة سواء فأقدمهم سنا ”لوگوں کا امام ایسا شخص ہونا چاہیے جو قرآن کا زیادہ علم رکھتا ہو ، اگر اس وصف میں لوگ برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جسے سنت نبوی کا زیادہ علم ہو ، اگر سنت کے علم میں بھی لوگ برابر ہوں تو پھر وہ امام بنے جو ہجرت کرنے میں مقدم ہو ، اور اگر اس وصف میں بھی لوگ برابر ہوں تو پھر وہ شخص امام بنے جو عمر میں زیادہ ہو۔“
[مسلم: 673 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب من أحق بالإمامة ، ترمذى: 235 ، أبو داود: 582 ، أحمد: 118/4 ، ابن ماجة: 980 ، أبو عوانة: 35/2 ، دارقطني: 208/1 ، بيهقي: 119/3 ، ابن خزيمة: 1057]
(احمدؒ، ابو حنیفہؒ) قرآن کے بڑے عالم شخص کو قرآن کے زیادہ فقیہ پر ترجیح دی جائے گی ۔ امام ابن سیرینؒ اور امام ثوریؒ وغیرہ اسی کے قائل ہیں۔
(مالکؒ ، شافعیؒ) زیادہ فقیہ کو قرآن کے زیادہ عالم پر مقدم کیا جائے گا۔
[نيل الأوطار: 413/2]
(راجح) پہلا موقف راجح ہے (یعنی بڑے قاری کو بڑے فقیہ پر ترجیح ہے)۔
(ابن حجرؒ) اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔
[فتح الباري: َ 201/2]
(شوکانیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 413/2]
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) میرے نزدیک یہی بات (یعنی گزشتہ موقف) راجح ہے۔
[تحفة الأحوذى: 37/2]
اگر امام کی نماز میں کچھ خلل واقع ہو جائے تو اس کا بوجھ امام پر ہو گا مقتدیوں پر نہیں
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يصلون لكم فإن أصابوا فلكم وإن أخطاوا فلكم وعليهم
”امام تمہیں نماز پڑھاتے ہیں اگر وہ ٹھیک نماز پڑھائیں تو اسکا تمہیں ثواب ملے گا اور اگر وہ غلطی کریں تو بھی تم کو ثواب ملے گا اور غلطی کا وبال اُن پر ہو گا ۔“
[بخارى: 694 ، كتاب الأذان: باب إذا لم يتم الإمام وأتم من خلفه ، أحمد: 355/2 ، شرح السنة: 840 ، بيهقى: 397/2]
➋ حضرت سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الامام ضامن فإذا أحسن فله ولهم وإن أساء فعليه ولا عليهم
”امام ذمہ دار ہے اگر وہ احسن انداز میں نماز پڑھائے تو اسے بھی ثواب ملے گا اور مقتدیوں کو بھی۔ اور اگر وہ نماز میں غلطی و کوتاہی کرے تو اسی پر اس کا وبال ہو گا نہ کہ مقتدیوں پر ۔“
مقتدی امام کے پیچھے کھڑے ہوںع گے الا کہ اگر اکیلا ہو تو امام کے دائیں جانب کھڑا ہوگا
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے دائیں جانب کھڑا کیا پھر ایک دوسرا شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو :
فأخذ النبى بأيديهما فدفعهم حتى أقامهما خلفه
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے ہاتھوں کو پکڑ کر دھکیلا حتی کہ انہیں اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔“
[مسلم: 3010 ، كتاب الزهد والرقائق: باب حديث جابر الطويل وقصة أبى اليسر ، أبو داود: 634 ، بيهقى: 239/2 ، شرح السنة: 827 ، حاكم: 254/1 ، ابن حبان: 573/5 ، 2197]
➋ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
امرنا النبى صلى الله عليه وسلم إذا كنا ثلثة أن يتقدم أحدنا
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ جب ہم تین آدمی ہوں تو (امامت کے لیے ) ہم میں سے ایک آگے بڑھ جائے ۔“
[ضعيف: ضعيف ترمذي: 37 ، كتاب الصلاة: باب ما جاء فى الرجل يصلى مع الرجلين ، ترمذي: 233]
جس روایت میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے امام اسود بن یزیدؒ اور علقمہؒ کو اپنے دائیں اور بائیں جانب کھڑا کر لیا ۔
[مسلم: 534 ، ترمذي: 453 ، أبو داود: 868 ، نسائي: 183/2 ، بيهقي: 83/2 ، دار قطني: 339/1 ، ابن أبى شيبة: 246/1 ، ابن خزيمة: 595]
امام شوکانیؒ رقمطراز ہیں کہ وہ روایت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔
[السيل الجرار: 261/1]
اور یہ بات مسلم ہے کہ مرفوع احادیث کو موقوف پر ترجیع ہوتی ہے۔
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ) سب اسی کے قائل ہیں کہ دو یا دو سے زائد افراد امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے۔
(جمہور) اس کے وجوب کے قائل ہیں۔
(سعید بن مسیّبؒ) اسے صرف مستحب کہتے ہیں۔
(نخعیؒ) اکیلا شخص بھی امام کے پیچھے کھڑا ہو گا۔
[نيل الأوطار: 443/2 ، الروضة الندية: 321/1]
(نوویؒ) یہ دونوں مذہب (امام سعیدؒ اور امام نخعیؒ کا) فاسد میں
[المجموع: 294/4]
(شوکانیؒ ) دو افراد امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور یہی عمل زمانہ رسالت ، زمانہ صحابہ اور زمانہ تابعین وغیرہ میں ثابت ہے۔
[السيل الجرار: 260/1]
➊ گذشتہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث اسی پر شاہد ہیں جس میں ہے کہ أنه صلى مع النبى صلى الله عليه وسلم فجعله عن يمينه
”انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا۔“
[مسلم: 3010]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما جب قیام اللیل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب آ کر کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکڑ کر اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا ۔
[بخاري: 859 ، كتاب الأذان: باب وضوء الصبيان ، مسلم: 763]
عورتوں کی امام (پہلی ) صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
أنها أمت النساء فقامت وسطهن
”انہوں نے عورتوں کی امامت کرائی اور ان کے درمیان میں کھڑی ہوئیں ۔“
[عبد الرزاق: 141/3 ، 5086 ، دارقطني: 404/1 ، بيهقى: 131/3 ، ابن أبى شيبة: 89/2 ، حاكم: 203/1]
➋ ایک روایت میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے متعلق مروی ہے کہ :
كانت تؤمهن فى رمضان وتقوم معهن فى الصف
”وہ رمضان میں عورتوں کی امامت کراتی تھیں اور ان کے ساتھ صف میں کھڑی ہوتی تھیں ۔ “
[ابن أبى شيبة: 88/2 ، عبد الرزاق: 140/3 ، 5082 ، دار قطني: 405/1 ، المحلى بالآثار: 137/3]
➍ حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم أمرها أن تؤم أهل دارها
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے گھر والوں کی امامت کرانے کا حکم دیا ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 553 ، كتاب الصلاة: باب إمامة النساء ، أبو داود: 592 ، ابن خزيمة: 1276 ، بيهقي: 130/3]
ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ عورت بھی امامت کرا سکتی ہے اور وہ مرد امام کی طرح الگ صف میں تنہا کھڑی نہیں ہو گی بلکہ عورتوں کے ساتھ پہلی صف کے وسط میں کھڑی ہو گی نیز عورت صرف عورتوں کو ہی امامت کرا سکتی ہے مردوں کو نہیں جیسا کہ اس کا بیان پیچھے گزر چکا ہے۔
سب سے آگے مردوں کی صفیں ہوں ، پھر بچوں کی اور پھر عورتوں کی
➊ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم كان يجعل الرجال قدام الغلمان ، والغلمان خلفهم والنساء خلف الغلمان
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو بچوں کے آ گے کھڑا کرتے اور بچوں کو ان کے پیچھے اور عورتوں کو بچوں کے پیچھے ۔“
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 132 ، كتاب الصلاة: باب مقام الصبيان من الصف ، أحمد: 345/5 ، أبو داود: 677 ، يه حديث شهر بن حوشب راوي كي وجه سے ضعيف هے۔ المجروحين: 361/1 ، ميزان الاعتدال: 283/2 ، تقريب التهذيب: 355/1 ، الجرح والتعديل: 382/4]
(البانیؒ) بچوں کو مردوں کے پیچھے کھڑا کرنے کی (کوئی دلیل) اس حدیث کے علاوہ مجھے نہیں ملی اور یہ (حدیث ) نا قابل حجت ہے اس لیے میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا کہ بچے مردوں کے ساتھ کھڑے ہوں جبکہ صف میں وسعت بھی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک یتیم بچے کا حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا بھی اس مسئلہ میں بحث ہے۔
[تمام المنة: ص/ 284]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
قمت أنا واليتيم وراءه وقامت العجوز من وراثنا
”میں اور ایک یتیم بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے اور ایک بوڑھی عورت ہمارے پیچھے کھڑی ہوئی۔ “
[بخارى: 860 ، كتاب الأذان: باب وضوء الصبيان ، مسلم: 658 ، موطا: 135/1 ، أحمد: 131/3 ، أبو داود: 612 ، ترمذي: 234 ، نسائي: 85/2]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
خير صفوف الرجال أولها وشرها آخرها وخير صفوف النساء آخرها وشرها أولها
”مردوں کی بہترین صف پہلی ہے اور بدترین آخری ہے اور عورتوں کی بہترین صف آخری ہے اور بدترین پہلی ہے ۔“
[مسلم: 440 ، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها ، أبو داود: 678 ، ترمذي: 2224 ، نسائي: 93/2 ، ابن ماجة: 1000 ، أحمد: 336/2 ، ابن خزيمة: 1561]
معلوم ہوا کہ پہلے مردوں کی صفیں ہوں گی جن میں بچے بھی شامل ہوں گے ، ان کے پیچھے عورتوں کی صفیں ہوں گی اور امام شوکانیؒ نے یہاں جو موقف اپنایا ہے ممکن ہے کہ ان کے نزدیک پہلی حدیث قابل اعتبار ہو ، لیکن چونکہ فی الحقیقت وہ حدیث ضعیف ہے اس لیے ان کا یہ موقف کہ ”بچوں کو مردوں کے پیچھے کھڑا کیا جائے گا“ درست نہیں۔
اگر امام کے ساتھ ایک مرد اور ایک عورت ہو
تو مرد امام کے دائیں جانب اور عورت پیچھے اکیلی کھڑی ہو گی۔
جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان النبى صلى الله عليه وسلم صلى به و بامه أو خالته قال فأقامني عن يمينه وأقام المرأة خلفنا
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کی والدہ یا خالہ کو نماز پڑھائی ، وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا اور اس عورت کو ہمارے پیچھے کھڑا کر لیا ۔“
[مسلم: 660 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب جواز الجماعة فى النافلة ، أبو داود: 609 ، نسائي: 86/2 ، ابن ماجة: 975 ، أحمد: 258/3 ، أبو عوانة: 75/2 ، بيهقى: 106/3]
◈ اگر عورت اور مرد دونوں ایک ہی صف میں کھڑے ہو جائیں تو کیا نماز ہو جائے گی؟
(جمہور ) نماز ہو جائے گی۔
(احناف) مرد کی نماز فاسد ہو جائے گی لیکن عورت کی فاسد نہیں ہو گی ۔
[نيل الأوطار: 444/2 ، سبل السلام: 588/2 ، الهداية: 57/1]
(ابن حجرؒ) یہ (احناف کا قول نہایت ) عجیب ہے ۔
[فتح البارى: 449/2]
پہلی صف میں کھڑے ہونے کے سب سے زیادہ مستحق عقلمند و سمجھدار لوگ ہیں
➊ حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليلنى منكم أولوا الأحلام والنهي ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم
”تم میں سے عقلمند اور سمجھدار لوگ میرے قریب کھڑے ہوں پھر وہ لوگ جو (فہم و فراست میں ) ان کے قریب ہیں پھر وہ جوان کے قریب ہیں۔“
[مسلم: 432 ، كتاب الصلاه: باب تسوية الصفوف وإقامتها ، أبو داود: 674 ، نسائي: 87/2 ، أحمد: 122/4 ، ابن خزيمة: 1542 ، ابن حبان: 2172 ، حاكم: 219/1 ، بيهقي: 97/3]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
كان رسول الله يحب أن يليه المهاجرون والأنصار لياخذوا عنه
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو پسند کرتے تھے کہ مہاجرین و انصار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوں تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھیں ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 797 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب من يستحب أن يلى الإمام ، الصحيحة: 1409 ، ابن ماجة: 977 ، ابن حبان: 7258 ، حاكم: 218/1]
➌ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت زر بن حبیش رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ اگر وہ (پہلی) صف میں کسی بچے کو دیکھتے تو اسے نکال دیتے ۔
[ابن أبى شيبة: 363/1 ، كتاب الصلوات: باب إخراج الصبيان من الصف]
نمازیوں پر صفیں برابر کرنا اور خلا کو پر کرنا لازم ہے
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سووا صفوفكم فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة
”اپنی صفیں برابر کرو کیونکہ صفوں کو برابر کرنا نماز قائم کرنے کا حصہ ہے ۔“
[بخاري: 723 ، كتاب الأذان: باب إقامة الصف من تمام الصلاة ، مسلم: 433 ، أبو داود: 668 ، ابن ماجة: 993 ، أحمد: 177/3 ، ابن خزيمة: 1543 ، شرح السنة: 382/2 ، بيهقى: 100/3 ، دارمي: 289/1]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيدى إخوانكم ولا تذروا فرجات للشيطان ومن وصل صفا وصله الله ومن قطع صفا قطعه الله
”صفوں کو سیدھا کرو، کندھوں کو برابر کرو ، خلا کو پر کرو ، اپنے بھائیوں کے لیے نرم ہو جاؤ ، شیطان کے لیے (صف میں) خالی جگہیں مت چھوڑو ، جس نے صف کو ملایا اللہ تعالیٰ اسے ملائے اور جس نے صف کو کاٹا اللہ تعالیٰ اسے کاٹے۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 620 ، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف ، أبو داود: 666]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وسطوا الإمام وسدوا الخلل
”امام کو درمیان میں رکھو اور خلا کو پُر کرو ۔ “
[صحيح: صحيح أبو داود: 632 ، كتاب الصلاة: باب مقام الإمام من الصف ، أبو داود: 681 ، بيهقي: 104/3 ، اس حديث كا صرف دوسرا حصه صحيح هے جيسا كه شيخ البانيؒ نے اسي كي طرف اشاره كيا هے۔]
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر تحریمہ سے پہلے ہماری طرف چہرہ کر کے فرماتے:
ترا صوا واعتد نوا
”ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی سے مل جاؤ اور برابر ہو جاؤ ۔“
[أحمد: 268/3 ، مسلم: 433 ، أبو يعلى: 3291 ، عبد الرزاق: 2427 ، أبو عوانة: 39/2 ، بيهقي: 21/2]
➎ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عباد الله ، لتسون صفوفكم أو ليخالفن الله بين وجوهكم ”اللہ کے بندو! تم ضرور اپنی صفوں کو برابر کرو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے چہروں کے درمیان مخالفت ڈال دیں گے ۔“
[مسلم: 436 ، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها ، أبو داود: 663 ، نسائي: 89/2 ، ترمذي: 227 ، ابن ماجة: 994 ، أحمد: 270/4 ، عبد الرزاق: 2429 ، بيهقي: 100/3]
(نوویؒ) اس حدیث کا معنی بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ :
يوقع بينكم العداوة والبغـضاء واختلاف القلوب ”اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان دشمنی اور بغض اور دلوں کا اختلاف پیدا کر دیں گے ۔“
[شرح مسلم: 394/2]
(ابن حجرؒ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ عمل واجب ہے اور اس میں کوتاہی حرام ہے۔
[فتح البارى: 443/2]
➏ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اقميوا الصف فى الصلاة فإن إقامة الصف من حسن الصلاة
”نماز میں صف کو سیدھا کرو کیونکہ صف کو سیدھا کرنا نماز کی خوبصورتی کا ایک حصہ ہے۔“
[بخاري: 722 ، كتاب الأذان: باب إقامة الصف من تمام الصلاة ، مسلم: 434 ، عبد الرزاق: 2424 ، أحمد: 214/2 ، ابن حبان: 2177 ، بيهقي: 99/3]
وأن يتمُّوا الصَّف الأوَّلَ ثُمَّ الَّذِي يَلِيْهِ ثُمَّ كذلك
نمازی پہلی صف کو پہلے مکمل کریں پھر اس سے قریبی صف کو اور پھر اسی طرح (بقیہ صفوں کو)
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اتموا الصف المقدم ثم الذى يليه فما كان من نقص فليكن فى الصف المؤخر
”پہلے اگلی صف کو مکمل کرو پھر اس سے قریبی کو اور جو بھی کمی ہو وہ پچھلی صف میں ہونی چاہیے۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 623 ، كتاب الصلاة باب تسوية الصفوف ، نسائي: 93/2 ، أحمد: 132/3 ، ابن خزيمة: 1546 ، ابن حبان: 2155 ، أبو يعلى: 3163 ، شرح السنة: 386/2]
➋ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فرشتوں جیسی صف بنانے کی ترغیب دلائی اور پھر فرشتوں کا صف بنانے کا طریقہ بتلایا کہ :
يتمون الصف الأول ويتراصون فى الصف
”وہ پہلی صف کو مکمل کرتے ہیں اور صف میں خوب مل کر کھڑے ہوتے ہیں۔“
[مسلم: 430 ، كتاب الصلاة: باب الأمر بالسكون فى الصلاة ، أبو داود: 661 ، نسائى: 92/2 ، ابن ماجة: 992 ، احمد: 101/5 ، ابن خزيمة: 1544 ، أبو عوانة: 39/2 ، ابن حبان: 2154]
پہلی صفوں کی فضیلت
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لو يعلمون ما فى النداء والصف الأول ثم لم يجدوا إلا أن يستهموا عليه لاستهموا
”اگر لوگوں کو آذان اور پہلی صف کے اجر کا علم ہو جائے ، پھر وہ انہیں صرف قرعہ ڈال کر ہی حاصل ہو ، تو وہ ضرور قرعہ ڈالیں ۔“
[مسلم: 660 ، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف وإقامتها]
➋ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله وملائكته يصلون على الصفوف الأولى
”بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے پہلی صفوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 618 ، كتاب الصلاة: باب تسوية الصفوف ، أبو داود: 664]
➌ حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ان رسول الله كان يستغفر للصف المقدم ثلاثا وللثاني مرة
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی صف کے لیے تین مرتبہ استغفار کرتے اور دوسری صف کے لیے ایک مرتبہ ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 815 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب فضل الصف المقدم ، ابن ماجة: 996 ، نسائى: 92/2 ، أحمد: 126/4 ، دارمي: 290/1 ، ابن خزيمة: 1558 ، ابن حبان: 2158]
تاخیر سے پہنچنا اور پچھلی صفوں میں کھڑا ہونا
ایسے شخص کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید بیان کی ہے لٰہذا تاخیر سے اجتناب کرنا چاہیے۔
➊ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يزال قوم يتأخرون حتى يؤخرهم الله عزو جل
”لوگ ہمیشہ تاخیر کرتے رہیں گے حتی کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کو موخر کر دیں گے ۔“
[مسلم: 438 ، أبو داود: 680 ، نسائي: 83/2 ، ابن ماجة: 978 ، أحمد: 19/3 ، ابن خزيمة: 1612]
(شوکانیؒ ) اس حدیث کا مفہوم یوں واضح کرتے ہیں کہ ”اللہ تعالیٰ انہیں اپنی رحمت اور عظیم فضل سے موخر کر دیں گے۔“
[نيل الأوطار: 457/2]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يزال قوم يتأخرون عن الصف الأول حتى يؤخرهم الله فى النار
”لوگ ہمیشہ پہلی صف سے تاخیر کرتے رہیں گے حتی کہ اللہ تعالیٰ انہیں مؤخر کر کے آخر میں پہنچا دیں گے۔ “
[صحيح: صحيح أبو داود: 630 ، أبو داود: 679]
صف کے دائیں جانب کھڑا ہونا
➊ حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے ، (مسعرؒ نے کہا کہ ) جسے ہم پسند کرتے یا جسے میں پسند کرتا تھا وہ یہ تھا کہ ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب کھڑے ہوں ۔
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 824 ، كتاب إقامة الصلاة والسنة فيها: باب فضل ميمنة الصف ، ابن ماجة: 1006]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ان الله وملا ئكته يصلون على ميامن الصفوف
”بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے صفوں کی دائیں اطراف پر رحمتیں بھیجتے ہیں ۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 209 ، أبو داود: 676 ، كتاب الصلاة: باب من يستحب أن يلي الإمام ، ابن ماجة: 1005 ، ابن حبان: 2160 ، بيهقي: 103/3]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ :
يعجبه التيمن فى تنعله وترجله وطهوره وفى شانه كله
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے ، بالوں میں کنگھی کرنے اور وضوء کرنے بلکہ ہر کام میں دائیں جانب کو پسند فرماتے تھے ۔“
[بخارى: 167 ، كتاب الوضوء: باب التيمن فى الوضوء والغسل ، مسلم: 395 ، ترمذي: 553 ، أحمد: 24369]