ایک گناہ سے توبہ اور دوسرے پر اصرار کے 3 شرعی پہلو
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص ،ج1ص، 221

ایک گناہ سے توبہ کرنا اور دوسرے سے توبہ نہ کرنا

سوال :

اگر کوئی شخص زنا اور چوری جیسے گناہوں سے تو توبہ کر لے، لیکن سود خوری اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے جیسے دوسرے کبیرہ گناہوں سے توبہ نہ کرے، تو کیا ایسی توبہ قبول ہو گی؟

جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حول ولا قوة الا بالله

قرآن سے استدلال

امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"امت کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَّصُوحًا
(النور: 31)
کے مطابق توبہ مؤمنوں پر فرض ہے۔”

"اور یہ توبہ ایک گناہ سے اس کے علاوہ کسی دوسری نوع کے گناہ پر قائم رہنے کے باوجود درست ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے، بخلاف معتزلہ کے، جن کا کہنا ہے کہ کسی گناہ پر قائم رہتے ہوئے توبہ درست نہیں۔ اور اہل سنت کے نزدیک ایک معصیت کا دوسری معصیت سے کوئی تعلق نہیں۔”
(تفسیر قرطبی، جلد 5، صفحہ 90)

اہل علم کی آراء

امام ابن قیم رحمہ اللہ کی وضاحت:
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے مدارج السالکین
(جلد 1، صفحہ 273)
میں اس مسئلہ پر مفصل بحث کی ہے:

"گناہ سے توبہ درست ہے اگرچہ دوسرے گناہ پر انسان مصر ہو۔”

"اس بارے میں اہل علم کے دو قول ہیں اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دو روایتیں مروی ہیں۔”

"جو لوگ اس کے صحیح ہونے پر اجماع نقل کرتے ہیں، جیسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ، وہ اس اختلاف سے واقف نہیں۔”

"یہ مسئلہ مشکل ہے اور اس میں گہرائی ہے۔”

ابن قیم رحمہ اللہ کا رجحان:
"میرے نزدیک ایک گناہ سے توبہ اُس وقت درست نہیں جب اسی نوع کے دوسرے گناہ پر اصرار باقی ہو۔”

"لیکن اگر توبہ ایسے گناہ سے کی جائے جس کا دوسرے گناہ سے کوئی تعلق نہ ہو، تو وہ توبہ صحیح ہے۔”

مثال کے طور پر:
"اگر کوئی شخص سود سے توبہ کرے لیکن شراب نوشی سے توبہ نہ کرے، تو سود سے اس کی توبہ صحیح ہے۔”

"لیکن اگر کوئی سود تفاضل سے توبہ کرے اور سود نسیہ سے نہ کرے، تو ایسی توبہ مردود ہے۔”

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1