ایمان اور الحاد: عقل اور انسانی وجود کی بحث
ایمان اور الحاد کی بحث کو مغربی مفکرین اکثر "ایمان بمقابلہ عقل” کے زاویے سے پیش کرتے ہیں، لیکن یہ بحث درحقیقت انسانی وجود کی حقیقت، اس کی ماقبل عقل بنیادوں، اور چند اساسی سوالات کے گرد گھومتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مغربی روایت عقل پر اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے، اور اس کے ذریعے ایمان کو غیر عقلی یا کمزور ظاہر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
انسانی وجود سے متعلق بنیادی سوالات
انسان کی مخلوقیت یا خودمختاری کا سوال
کیا انسان کسی خالق کی مخلوق ہے یا وہ آزاد اور خودمختار وجود رکھتا ہے؟ یہ سوال نہ صرف انسان کے اپنے وجود بلکہ کائنات کے عمومی وجود کی حقیقت پر بھی براہ راست اثر ڈالتا ہے۔
انسانی وجود کا مقصد کیا ہے؟
آیا انسان یہاں کسی آزمائش کے لئے موجود ہے یا یہ محض ایک بے معنی اتفاق کا نتیجہ ہے؟
اگر ارتقاء کے نظریے کو مانا جائے تو اس کے نتیجے میں درج ذیل اہم سوالات جنم لیتے ہیں:
ارتقاء، آزاد ارادہ، اور انسانی علم
(الف) آزادی اور ارتقاء کا تضاد
ارتقاء کے مطابق انسان محض ایک حادثاتی وجود ہے۔ ایسی صورت میں یہ دعویٰ کہ انسان آزاد ارادہ رکھتا ہے، غیر منطقی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ جو وجود حادثے کا نتیجہ ہو، وہ خودمختار کیسے ہو سکتا ہے؟
(ب) انسانی صلاحیتوں کی نوعیت
اگر انسانی دماغ اور صلاحیتیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر اتفاقات کسی اور طرح ہوتے، تو انسانی علم، ذات، اور حقیقت کا تصور بالکل مختلف ہوتا۔
(ج) علم اور حقیقت کا تعلق
ارتقائی نظریہ کہتا ہے کہ انسانی دماغ کا ارتقاء محض بقا کی جدوجہد کے لئے ہوا ہے۔ اس صورت میں انسان کا علم حقیقت کو سمجھنے کے بجائے صرف بقا کے امکانات بڑھانے تک محدود ہے۔
(د) اخلاقیات کا خاتمہ
ارتقائی تصور کے مطابق اخلاقیات محض بقا کے لئے ایک حکمت عملی ہیں، نہ کہ کوئی حقیقی یا آفاقی حقیقت۔ اس بنیاد پر لبرل سیکولر اخلاقیات، جیسے تمام انسانوں کی مساوات، بے بنیاد ثابت ہوتی ہیں۔
(ہ) معذور افراد کی حیثیت
معذور افراد کو ارتقاء کے مطابق ایک "غلط اتفاقی میوٹیشن” کہا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ان کی مدد کرنے یا ان کی زندگی کو بامعنی بنانے کی کوشش بھی ارتقائی نقطۂ نظر سے غیر منطقی سمجھی جائے گی۔
نظریہ ارتقاء اور انسانی عقل کی گتھیاں
انسانی عقل کی اضافی صفات
ارتقاء کے مطابق انسانی عقل کی تمام صلاحیتیں بقا تک محدود ہیں، لیکن یہ نظریہ انسانی عقل کی درج ذیل صفات کی کوئی وضاحت پیش نہیں کر پاتا:
- استنباط (Deduction)
- حق و باطل میں تمیز
- جمالیاتی ذوق
- حقیقت کو دریافت کرنے کی جستجو
یہ تمام صفات بقا کی ضرورت سے ماورا ہیں، اور ان کی موجودگی ارتقائی اصولوں سے متضاد معلوم ہوتی ہے۔
گیپ فلنگ اور پیچیدگی کا سہارا
نظریہ ارتقاء ان سوالات کا جواب دینے کے لئے Complexity Theory اور Emergent Properties جیسے تصورات کا سہارا لیتا ہے، لیکن یہ وضاحتیں خود نہایت پیچیدہ اور غیر یقینی ہیں۔
مثلاً: انسانی دماغ کی ان خصوصیات کی وضاحت کے لئے Chaos Theory کا حوالہ دیا جاتا ہے، جو نہایت پیچیدہ اور مشکل ریاضیاتی ماڈلز پر مبنی ہے۔ ڈاکنز جیسے ملحدین عوامی فورمز پر ارتقاء کو سادہ اور ایمان کو پیچیدہ قرار دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں نظریہ ارتقاء کے اصول نہایت پیچیدہ ہیں، اور اس کے ذریعے انسانی صفات کی وضاحت ابھی تک نامکمل ہے۔
نتیجہ
نظریہ ارتقاء انسانی وجود، عقل، اور اخلاقیات کے بنیادی سوالات کے تسلی بخش جوابات دینے سے قاصر ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو صرف امید دلانے پر انحصار کرتا ہے کہ شاید مستقبل میں یہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ دوسری طرف، الحاد کے بڑے علمبردار اپنے نظریے کو آسان اور مذہبی ایمان کو پیچیدہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ خود ارتقائی نظریے کی وضاحت میں شدید پیچیدگی اور تضادات موجود ہیں۔