ایمان اور جنت کا راستہ: دنیاوی کامیابی کافی نہیں!
تحریر : یوسف سراج

ابن انشاء کی دلچسپ کہانی اور معاشرتی حقیقت

ابن انشاء نے ایک دلچسپ کہانی لکھی ہے جس میں ایک سکول ماسٹر کو ایک انوکھا اعزاز ملا۔ اس ماسٹر نے اپنی محنت، لگن اور باقاعدگی کے باعث ریاست کے بہترین استاد کا خطاب جیتا۔ بادشاہ اس کی خدمات سے اتنا متاثر ہوا کہ اسے ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر ترقی دینا چاہی، لیکن افسوس پورے ملک میں کوئی سکول ایسا نہیں ملا جہاں یہ عہدہ خالی ہو۔ بادشاہ اپنی دھن کا پکا تھا، اس نے حکم دیا کہ کسی بھی محکمے میں جہاں ہیڈ کی سیٹ خالی ہو، وہاں اس ماسٹر کو تعینات کیا جائے۔ آخرکار زچہ و بچہ ڈیپارٹمنٹ میں ہیڈ نرس کی پوسٹ خالی ملی، اور ماسٹر کو اس عہدے پر تعینات کر دیا گیا، باوجود اس کے کہ وہ اس شعبے میں خدمات سرانجام دینے کے قابل نہیں تھا۔

معاشرتی رویوں پر طنز

یہ کہانی ہماری معاشرتی حقیقتوں پر طنز کرتی ہے، خاص طور پر اس رجحان پر جب کسی مشہور شخصیت کے انتقال کے بعد اس کی تعلیم یا قابلیت کو دیکھے بغیر اسے کسی بڑے منصب پر فائز کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ یہی کچھ سٹیفن ہاکنگ کی وفات پر بھی دیکھنے میں آیا، جہاں کچھ لوگوں نے ان کے لیے جنت کی دعائیں شروع کر دیں۔ یہ دوہرا معیار اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کچھ افراد ایک طرف خدا اور مذہب کو رد کرتے ہیں اور دوسری طرف کسی مشہور شخص کے لیے جنت کے طلبگار بھی ہوتے ہیں۔

واصف علی واصف کا قول اور ہماری حقیقت

یہ طرز عمل واصف علی واصف کے قول کی یاد دلاتا ہے کہ "زندگی ہم فرعون کی اور عاقبت ہم سیدنا موسیٰؑ کی پانا چاہتے ہیں”۔ حقیقت یہ ہے کہ جنت اور دوزخ کے فیصلے ہمارے ہاتھ میں نہیں، بلکہ ایمان کے دروازے سے گزر کر ہی جنت کا راستہ ممکن ہے۔ بغیر ایمان کے کسی بھی کامیابی یا آخرت کی بہتری کی توقع رکھنا بے وقوفی ہے۔

سائنسدانوں کو مسیحا سمجھنا

بعض لوگ سائنس کے خدمات سر انجام دینے والوں کو انسانیت کے مسیحا سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی تعریف میں یہاں تک چلے جاتے ہیں کہ انہیں اللہ کے ولی قرار دینے لگتے ہیں۔ یہ رویہ اس بات کی مثال ہے کہ ہم کبھی کبھی وقتی فوائد کے لیے اصل مقصد سے غافل ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص بچے کو تعلیم سے ہٹا کر کھیل میں لگا دے تو وقتی طور پر بچہ خوش ہو سکتا ہے، لیکن کیا وہ اپنی تعلیم مکمل کر سکے گا؟ اسی طرح زندگی کی آسائشوں کو اصل کامیابی سمجھنے والا بھی اپنی آخرت کی تیاری میں ناکام ہو جاتا ہے۔

دنیا کی حقیقت اور آخرت کی تیاری

اصل بات یہی ہے کہ دنیا کی سہولتوں میں ریجھ جانے والا انسان کبھی منزل کو نہیں پا سکتا۔ دنیا ایک مسافر خانہ ہے اور اصل کامیابی اس میں آسائشوں کو اکٹھا کرنے میں نہیں، بلکہ درست راستے پر چلنے میں ہے۔ جنت کے حصول کے لیے ایمان ضروری ہے اور یہ وہی دین ہے جسے آپ تسلیم نہیں کرتے، لیکن اسی دین کی اصطلاحات کو استعمال کرتے ہیں۔

خلاصہ

➊ دنیا میں وقتی آسائشیں اصل کامیابی نہیں، بلکہ آخرت کی تیاری ہے۔
➋ جنت کے حصول کے لیے ایمان اور نیک اعمال ضروری ہیں۔
➌ کسی کی وفات پر اس کی آخرت کا فیصلہ کرنا ہمارے اختیار میں نہیں۔
➍ دنیا ایک عارضی مسافر خانہ ہے، جہاں اصل کامیابی صحیح راستے پر چلنے میں ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے