ایصال ثواب کے جائز و مسنون اعمال صحیح احادیث کی روشنی میں
مرتب: محمد اسماعیل ساجد حفظ اللہ

ایصال ثواب:

لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ [البقرة: 286]
”اللہ تعالی کسی جان پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا، ہر نفس نے جو بھی نیکی کمائی ہے، اس کا اجر اسی کے لیے ہے اور جو اس نے برائی کی ہے، اس کا وبال بھی اسی پر ہے۔ “
کلام الٰہی کے اس قاعدہ کلیہ کے مطابق ہر فردای خدمت پر انعام و اکرام کا حق دار ہو گا جو اس نے خود انجام دی ہو۔ ایسا نہیں کہ ایک شخص کی محنت پر دوسرا انعام کا مستحق قرار پائے اور یہی قانون الٰہی برائی اور جرم کا ارتکاب کرنے والے کے لیے ہے۔ البتہ یہ ضرور ممکن ہے کہ کسی شخص نے اپنی زندگی میں ایک اچھے کام کی شروعات کی ہوں اور اس کی وفات کے بعد بھی سالہا سال تک اس نیکی کے اثرات مرتب ہوتے رہیں اور اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں درج ہوتی رہیں۔ لٰہذا سمجھ دار اور بانصیب شخص وہی ہے جو اپنی زندگی میں ایسے اعمال کرے جو قبر و آخرت میں اس کے لیے نفع بخش ہو سکیں۔
جیسا کہ جامع ترمذی میں سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے جسے سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عقل مند ہے وہ شخص جس نے (اپنی زندگی میں) اپنا محاسبہ کیا اور ایسے اعمال اختیار کئے جو موت کے بعد بھی اس کے کام آئیں اور بیوقوف ہے وہ شخص جو اپنی خواہشات کے پیچھے لگا رہے اور اللہ تعالی سے بخشش کا طلب گار بھی ہو۔ “
[جامع ترمذي: ابواب صفته القيامة: باب: 25 ، حديث: 2459 ، ابن ماجه: حديث: 4260]

ایصال ثواب کے مسنون اعمال:

قرآن کریم مذکورہ آیت مبارکہ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی کے مطابق میت کے ایصال ثواب کا دارو مدار بھی اس کی اپنی زندگی کے اچھے یا برے اعمال پر ہے۔ اگر فوت ہونے والا شخص اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھنے والا، اس کے بھیجے ہوئے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پسند کرنے والا اور اس کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کرتے ہوئے فوت ہونے والا ہو تو ایسے خوش بخت مرد و زن کے لیے درج ذیل فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایصال ثواب کی خوشخبری منقول ہے، جبکہ اس کے برعکس زندگی گزار کر جانے والے لوگ اللہ تعالٰی کے اس انعام و اکرام سے محروم اور نا مراد ہیں۔
عن ابي هريرة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ” إذا مات الإنسان انقطع عنه عمله إلا من ثلاثة، إلا من صدقة جارية، او علم ينتفع به، او ولد صالح يدعو له
[صحيح مسلم: كتاب الوصية: باب: 3 ، حديث: 4223 / 14 / 1631 ۔ ابو داؤد: كتاب الوصايا: حديث: 2880]
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان کے فوت ہونے کے بعد اس کے تمام اعمال و اسباب منقطع ہو جاتے ہیں۔ مگر تین عمل جاری رہتے ہیں۔
➊ صدقہ جاریہ۔
➋ وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔
➌ نیک اور صالح اولاد جو اس کے لیے دعائے خیر کرے۔“
عن ابي هريرة رضى الله عنه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” إن مما يلحق المؤمن من عمله، وحسناته بعد موته، علما علمه ونشره، وولدا صالحا تركه، ومصحفا ورثه، او مسجدا بناه، او بيتا لابن السبيل بناه، او نهرا اجراه، او صدقة اخرجها من ماله فى صحته وحياته يلحقه من بعد موته”.
[سنن ابن ماجه: باب ثواب معلم الناس الخير: حديث رقم: 242 ، اس حديث كي تخريج علامه ناصر الدين الباني كے نزديك حسن هے، اور يه حديث صحيح ابن خزيمه ميں بهي درج هے۔ بحواله: كتاب الجنائز: از پروفيسر ابو حمزه محمد اعظم چيمه، ص: 307 ، مطبوع: 2015ء]
”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مومن کو موت کے بعد اس کے اعمال اور حسنات میں سے جن کا اجر ملتا ہے وہ علم ہے۔ جو اس نے سکھایا اور نشر کیا، یا وہ نیک اور صالح اولاد ہے جسے وہ چھوڑ گیا، یا قرآن ہے جس کا اس نے کسی کو وارث بنایا ، یا اس نے مسجد بنائی ، یا مسافروں کے لیے کوئی سرائے اور آرام گاہ تعمیر کرائی، یا اس نے نہر کھدوائی ، یا اپنی زندگی میں اپنے مال سے تندرستی کی حالت میں صدقہ کیا ، یہ ایسے اعمال ہیں جن کا اجر و ثواب اور فائدہ اسے موت کے بعد بھی پہنچتا رہے گا۔ “
رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں مذکورہ حدیثوں سے معلوم ہوا کہ مومن کا ہر نیک عمل جو اس کی موت کے بعد بھی اہل دنیا کے کام آتا رہے وہ اس کے لیے ایصال ثواب کا موجب ہو گا، یہاں تک کہ مومن میت کی نیک اولاد کی دعا اور صدقہ و خیرات بھی اس کی زندگی کے عمل سے تعلق رکھتے ہیں، کیونکہ اولاد کی اچھی تربیت بھی اس کی نیک کمائی اور سرمایہ ہے۔ جیسا کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذیل فرمان منقول ہے۔
إن اطيب ما اكلتم من كسبكم , وإن اولادكم من كسبكم
[جامع ترمذي: ابواب الاحكام: باب: 22 ، حديث: 1358 ، ابن ماجه: 2290 ، واسناده صحيح:]
”بہترین روزی وہ ہے جو تم لوگ اپنی کمائی سے کھاتے ہو اور بلاشبہ تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی سے ہے۔ “
چنانچہ اولاد کو چاہئے کہ اپنے والدین کی وفات کے بعد ایسے کام انجام دیں جو قرآن و حدیث سے ثابت ہوں اور ان اعمال سے اجتناب کریں جن کا شریعت مطہرہ میں ثبوت نہیں ملتا۔ ایسا نہ ہو کہ ثواب کی بجائے گناہ کا ارتکاب کر بیٹھیں جو ہمارے والدین کے لیے نقصان کا باعث بن جائے۔ لٰہذا ذیل کی احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور ایصال ثواب بیان کیا جا رہا ہے تا کہ اس کا مسنون طریقہ اور انداز واضح ہو جائے۔
❀ کافر اور مشرک میت کو ایصال ثواب کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
[سلسلة الاحاديث الصحيحة: 484]
❀ فوت شدہ کی طرف سے پانی کا انتظام کر دینا بہترین صدقہ جاریہ ہے۔
[صحيح النسائي: 3425]
❀ میت کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کرنا ثابت نہیں۔
[تفسير ابن كثير: 257/4]

میت کی نیک خواہش پوری کرنا:

عن عائشة رضي الله عنها ان رجلا، قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ” إن امي افتلتت نفسها واراها، لو تكلمت تصدقت، افاتصدق عنها؟ قال: نعم تصدق عنها.
[صحيح بخاري: كتاب الوصايا: باب 19 ، حديث: 2760]
”ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کی ”میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہیں، میرا خیال ہے اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرنے کا کہتیں، کیا اب میں ان کی طرف سے صدقہ کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں اگر تو اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کرے گا تو تیری والدہ کو اس کا فائدہ پہنچے گا۔“

میّت کی منت پوری کرنا:

عن ابن عباس رضي الله عنهما، ان سعد بن عبادة رضى الله عنه استفتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن امي ماتت وعليها نذر، فقال: ” اقضه عنها”.
[صحيح بخاري: كتاب الوصايا: باب: 19 ، حديث رقم: 2761 ، صحيح مسلم: كتاب النذر:]
”سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور ان کے ذمے ایک نذر تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تم ان کی طرف سے یہ نذر پوری کر دو ۔“
نذر کے متعلق یاد رہے کہ اگر میت نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تابع فرمانی اور اپنی ملکیت والی چیز پر منت مان رکھی تھی تو ایسی منت اور نذر پورا کرنا ورثاء پر فرض ہے۔ بصورت دیگر اس پر عمل نہ کرنا ہی لواحقین کے لیے بہتر ہے۔
[صحيح مسلم: كتاب النذر:]
عن ابن عباس رضي الله عنه، ان امراة من جهينة جاءت إلى النبى صلى الله عليه وسلم، فقالت: ” إن امي نذرت ان تحج فلم تحج حتى ماتت، افاحج عنها؟ قال: نعم، حجي عنها، ارايت لو كان على امك دين اكنت قاضية، اقضوا الله، فالله احق بالوفاء”.
[صحيح بخاري: كتاب العمرة: جزاء الصيد باب: 22 ، حديث رقم: 1852]
”سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے قبیلہ جہینہ کی ایک خاتون نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم سے عرض کی میری والدہ نے حج کی منت مان رکھی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکیں اور فوت ہو گئیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہاں“ ان کی طرف سے حج کرو، کیا اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتی؟ اللہ تعالی ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے، لٰہذا اللہ کا قرض ضرور ادا کرو۔

میت کی طرف سے صدقہ:

صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا میری والدہ فوت ہو گئی ہے، اُس وقت میں وہاں موجود نہ تھا۔ میں اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کو فائدہ ہو سکے گا؟ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا ایک پھل دار باغ ہے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر کہتا ہوں میں نے والدہ کی طرف سے صدقہ کیا۔
[صحيح بخاري: 2756]

ضرور صدقہ کیجیے:

حدیث سے بخوبی ظاہر ہو رہا ہے کہ والدین کی وفات کے بعد وہ کہیں یا نہ کہیں صدقہ کر دینا چاہیے۔ سیدنا رحمتہ للعالمین صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
اولاد کا کیا ہوا صدقہ والدین کو فائدہ دے گا۔ میری نظروں میں جو فائدہ ہوگا وہ یہ ہے:
➊ یہ صدقہ اللہ کے غصے کو ٹھنڈا کر دے گا جس سے میت کی بخشش ممکن ہو سکے گی۔
➋ یہ صدقہ میت کو قبر کی گرمی ، قبر میں سوال و جواب کی پریشانیوں ، قبر کی تنگی ، قبر کے اندھیروں اور قبر کے دل دہلا دینے والے عذاب سے ضرور نجات دلائے گی۔
➌ یہ صدقہ اُس کے صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کا کفارہ بھی بن سکتا ہے۔
➍ میت کی طرف سے کیا جانے والا صدقہ میت کی کمیوں کوتاہیوں اور جنت میں لے جانے والی تمام رکاوٹوں کو پاش پاش کر دینے کا بہانہ ہے۔ دراصل اللہ تبارک و تعالی کسی نہ کسی زاویہ سے اس میت کو بخشنے کا یقینی خواہش مند اور متمنی ہے۔

میت کے روزوں کی قضاء دینا:

عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: ” جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ، إن امي ماتت وعليها صوم شهر، افاقضيه عنها؟ قال: نعم، قال: فدين الله احق ان يقضى”
[صحيح بخاري: كتاب الصوم: حديث رقم: 1953 ، صحيح مسلم: كتاب الصيام: باب قضاء الصوم عن الميت: حديث: 1148 ، ابو داؤد: حديث: 3310]
”سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی میری والدہ فوت ہو گئی ہیں، ان پر ایک مہینے کے روزے ہیں، کیا میں ان کی قضاء دے سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے؟ اس نے عرض کی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”تو پھر اللہ تعالیٰ کا قرض ادائیگی کا زیادہ حق رکھتا ہے۔ “
عن عائشة رضي الله عنها، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ” من مات وعليه صيام، صام عنه وليه”،
[صحيح البخارى: كتاب الصوم: باب: 42 ، حديث رقم: 1952 ، صحيح مسلم: كتاب الصيام: حديث: 1147 ، ابو داؤد: حديث رقم: 3311]
”ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”جو مرد ، عورت فوت ہو جائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کا وارث اس کے روزے رکھے۔“

معذور والدین کی طرف سے حج کرنا:

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے حجتہ الوداع پر ایک خاتون نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی ”اللہ تعالٰی کا عائد کردہ فریضہ حج میرے والد کی زندگی میں آ گیا ہے، مگر وہ بڑھاپے کی وجہ سے سواری پر بیٹھ نہیں سکتے ، میں ان کی طرف سے حج کروں تو ان کا حج ہو جائے گا؟ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ۔“
[صحيح بخاري: كتاب الحج: حديث رقم: 1513 ، صحيح مسلم: كتاب الحج: باب: 71 ، حديث: 3251 / 407 / 1334 ، ابو داؤد: 1809]
مذکورہ حدیث شریف کی روشنی میں بیمار یا فوت شده ، بہن ، بھائی اور عزیز و اقارب کی طرف سے حج بدل کیا جا سکتا ہے۔ لٰہذا اس فریضہ کو وہی لوگ ادا کر سکتے ہیں جو پہلے اپنی طرف سے حج کر چکے ہوں۔
[سنن ابي داؤد: كتاب المناسك: حديث رقم: 1811]

فوت شدہ والدین سے حسن سلوک:

سیدنا ابو اسید مالک بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی سلمہ کے ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: مجھے اپنے ماں باپ سے جو حسن سلوک کرنا چاہئے تھا اس میں سے کچھ باقی ہے ، کیا میں ان کی وفات کے بعد ان کے لیے کچھ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ہاں تمہیں ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا چاہئے اور ان کی موت کے بعد ان کے وعدوں کو نبھانا چاہئے اور ان کے دوستوں کی عزت اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنی چاہئے۔ “
[سنن ابن ماجه: الادب حديث: رقم: 3664 ، ابو داؤد: كتاب الادب: حديث رقم : 5142 ، اس كي سند حسن هے]
یعنی صحیح العقیدہ اور صالح شخص کی وفات کے بعد اس کی اولاد یا شاگرد اور تلامذہ اس کے حق میں دعاء استغفار یا کوئی بھی اچھا عمل کریں تو فوت شدہ کو ان کی اس نیکی سے برابر اجر و ثواب ملتا رہے گا، خواہ پچھلے اس کا نام لیں یا نہ لیں۔ ان شاء اللہ فوت شدہ کو ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرنے کی وجہ سے ان کے اعمال صالحہ سے اپنا حصہ موصول ہوتا رہے گا۔

غریبوں کا نسخہ:

غور کیجیے! اگر تم پیسوں ، روپوں اور دولت سے کنواں ، نہر ، نلکا ، سراں ، مسجد بنانے کی سکت ، طاقت اور ہمت نہیں رکھتے تو کیا تم زبان ہلا کر ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتے۔ یقینا ہر بندہ ہر بندی کم از کم اگر وہ صدقہ بذریعہ رقم کرنے کے اہل نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں وہ اپنی زبانوں کو ہلا کر اپنے الشكور (قدر دان) رب العالمین کے سامنے اپنے فوت شدگان کے لیے ضرور دعا کریں۔
نہ جانے کون مجھے دعاؤں میں یاد کرتا ہے
میں ڈوبتا ہوں تو سمندر اچھال دیتا ہے
قدردان کی قدر دانیاں دیکھو اور دعاؤں کے قیمتی لمحات ضائع مت کرو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے