اہل بیت کے لئے صدقے کا مال لینے کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃجلد 1

سوال

کیا اہل بیت صدقے کا مال لے سکتے ہیں اگر وہ محتاج ہوں؟

الجواب

اہل بیت کے لئے فرضی صدقہ یعنی زکوۃ کا مال لینا حرام ہے۔ اور اس پر تقریبا تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ کیونکہ آپ نے فرمایا:
’’إن الصدقة لا تحل لاۤل محمد إنما هي أوساخ الناس‘‘[مسلم : 2530]
صدقہ آل محمد کے شایان شان نہیں ہے۔یہ تو لوگوں کی مالوں کی میل ہے۔
باقی رہا نفلی صدقہ،تو اس کے بارے میں اکثر اہل علم جواز کے قائل ہیں کہ اہل بیت اگر ضرورت مند ہوں تونفلی صدقہ لے سکتے ہیں۔اور فقہاء اربعہ سے یہی مشہور ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں:
” ولا يحرم على آل محمد صدقة التطوع ، إنما يحرم عليهم الصدقة المفروضة :
آل محمد پر نفلی صدقہ حرام نہیں ہے،ان پر فرضی صدقہ حرام ہے۔"الأم” (2/88)
امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع اوقاف سے پانی پی لیا کرتے تھے ۔ان سے پوچھا گیا کہ یہ تو صدقے کا مال ہے جو آپ پر حرام ہے تو انہوں نے جواب دے کہ(إنما حرمت علينا الصدقة المفروضة) ہم پر فرضی صدقہ حرام ہے۔ الأم” (2/88)
مذکورہ دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت اگر محتاج ہوں تو ان کےلئے نفلی صدقہ قبول کرنا جائز ہے ۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!