اپنے والدین اور اولاد کو زکوٰۃ دینا
والدین خواہ کتنے ہی اوپر چلے جائیں (یعنی دادا ، پردادا وغیرہ) اور اولاد خواہ کتنی ہی نیچے چلی جائے (یعنی بیٹا پوتا اور پوتے کا بیٹا وغیرہ ) فرض زکوٰۃ کے مستحق نہیں کیونکہ ان سب کا نفقہ اس شخص پر واجب ہے اگر وہ اس کی طاقت رکھتا ہے۔
(ابن منذرؒ ) انہوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔
[الإجماع لابن المنذر: 118 ، ص/ 51 ، المغنى: 98/4]
صاحب بحر الزخار نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔
[كما فى نيل الأوطار: 141/3]
(ابن عباس رضی اللہ عنہما ) ان رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینے میں کوئی حرج نہیں جو تمہارے اہل و عیال نہ ہوں ۔
[ابن أبى شيبة: 10531]
(ابن بازؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[فتاوي ابن باز مترجم: 117/1]
اولاد کو اس لیے بھی زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی کیونکہ فی الحقیقت اولاد کا مال بھی والد کا مال ہی ہے یعنی اولاد کو زکوٰۃ دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے اپنے نفس کو زکوٰۃ دے دی۔
➊ حدیث نبوی ہے کہ أنت ومالك لأبيك ”تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کی ملکیت ہے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1855 ، 1856 ، كتاب التجارات: باب ما للرجل من مال ولده ، إرواء الغليل: 838 ، ابن ماجة: 2291 ، 2292]
➋ ایک اور روایت میں یہ لفظ ہیں: إن أولادكم من كسبكم ”تمہاری اولاد یقینا تمہاری کمائی میں سے ہی ہے۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1854 أيضا ، ابن ماجة: 2290 ، أبو داود: 3528 ، ترمذي: 1358]
ایک روایت میں ہے کہ یزید رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے معن رضی اللہ عنہ کو لاشعوری طور پر صدقہ دے بیٹھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑتے ہوئے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا: لك ما نويت يا يزيد ولك ما أخذت يا معن ”اے یزید ! تمہیں اس چیز کا اجر مل جائے گا جس کی تم نے نیت کی اور اے معن ! جو تم نے حاصل کر لیا وہ تمہارا ہی ہے ۔“
[بخاري: 1422 ، كتاب الزكاة: باب إذا تصدق على ابنه وهو لا يشعر، أحمد: 470/3]
امام شوکانیؒ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ نفلی صدقے کے بارے میں ہے۔
[نيل الأوطار: 142/3]
(ابن تیمیهؒ ) والدین اور اولاد کو زکوٰۃ کا مال دینا اس وقت جائز ہے جبکہ وہ فقیر ہوں اور یہ شخص ان کے نفقے سے عاجز ہو ۔
[اختيارات ابن تيمية: ص/ 61 – 62]