”ایمان کے ساتھ ان شاء اللہ“
سوال: ایمان کے ضمن میں کہنا کہ ”میں ان شاء اللہ مؤمن ہوں“ اس جملے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس میں اختلاف ہے ، لیکن صحیح قول یہ ہے کہ ”میں ان شاء اللہ مؤمن ہوں“ کہنا جائز ہے جبکہ اس سے مراد ایمانِ کامل ہو ، چوں کہ ایمان گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے اور لوگ اس میں اپنے اعمال و افعال کے اعتبار سے مختلف درجات کے ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان کامل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا﴾ [الانفال: 2 – 4]
”بس ایمان والے ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو اُن کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ، جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ بچے ایمان والے یہی لوگ ہیں ۔“
اور ہر صاحب ایمان اس وصف کو کامل نہیں کر سکتا ۔ پس جس نے کہا:
”میں پکا مؤمن ہوں“ اور اس کی مراد کامل ایمان ہو تو بلاشبہ اس نے اپنے نفس کی پاکی کا دعوی کیا اور جس چیز کا وہ مالک نہ تھا اس کا نعرہ لگایا ۔ لیکن جب وہ کہے کہ ”میں ان شاء اللہ مومن ہوں“ اور اس کا مقصد ہو کہ وہ مذکورہ آیت کے تحت داخل ہو جائے تو وہ سچا ہے ۔ اس طرح وہ آدمی بھی سچا ہے جس نے کہا: ”ان شاء اللہ میں مؤمن ہوں“ کیوں کہ اسے خبر نہیں کہ انجام کار کیا ہوگا اور اعمال کا اعتبار تو اختتام پر منحصر ہے ۔ اور اسی طرح اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مشیت و مرضی کے ساتھ مستقبل کے معاملات کو جوڑ دیا جائے یا حصول برکت کی خاطر ان شاء اللہ کہہ دیا جائے تو جائز ہے اور یہ شک و تردد پر بھی دلالت نہیں کرتا ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ﴿٢٣﴾ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ﴾ [الكهف: 24 23]
”اور ہرگز ہرگز کسی کام پر یوں نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا ، مگر ساتھ ہی ان شاء اللہ کہہ لینا ۔“
اور کچھ لوگ اس طرف گئے ہیں کہ ایمان کے سلسلے میں ہمیشہ ان شاء اللہ کہنا ضروری ہے اس لیے کہ انجام کی خبر نہیں کیوں کہ یہ اعمال کے انجام پر منحصر ہے ۔ (ایمان کے ساتھ ان شاء اللہ کہنا) اس لیے بھی ضروری ہے کہ اکثر و بیشتر انسان کے اندر کمی کو تاہی پائی جاتی ہے اور واجبات میں سے بہت سے کاموں کو چھوڑ دیتا ہے ، اس لیے بندہ دعوے کے ساتھ نہیں کہہ سکتاکہ وہ پرہیزگار ، پارسا اور اہل جنت میں سے ہے ۔ البتہ رحمت الہی کی بنیاد پر اس کا امیدوار ہوگا ۔ جہاں شک کی گنجائش نہیں ہو سکتی وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ”ان شَاءَ اللہ“ کا جملہ استعمال کیا ہے ۔ فرمایا:
﴿لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ . . .﴾ [الفتح: 27]
”کہ ان شاء اللہ تم یقیناًً پورے امن و امان کے ساتھ مسجد حرام میں داخل ہو گے ۔ ۔ ۔ “
اور اس جیسی دوسری آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ پیش آنے والے امور کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے کیونکہ اللہ جو چاہتا ہے وہ ہو جاتا ہے اور جو وہ نہیں چاہتا وہ نہیں ہوتا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا﴾ [الدهر الانسان: 30]
”اور تم نہ چاہو گے مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ ہی چاہے بے شک اللہ تعالیٰ علم والا باحکمت ہے ۔“ واللہ أعلم