اونٹوں کی زکوٰة
تحریر: عمران ایوب لاہوری

اونٹوں کی زکوٰة:
إِذَا بَلَغَتِ الْإِبِلُ خَمْسًا فَفِيْهَا شَاةٌ ثُمَّ فِي كُلِّ خَمْسٍ شَاةٌ فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ أَوْ ابْنُ لَبُونِ وَفِي سِست وَثَلَاثِينَ ابْنَةُ لَبُونِ وَفِي سِتٌ وَأَرْبَعِينَ حِقَّةٌ وَفِي إِحْدَى وَسِتِّينَ جَدَعَةٌ وَفِي سِتْ وَسَبْعِينَ بِنَتَا لَبُوْنِ وَفِى إِحْدَى وَتِسْعِينَ حِقَّتَانِ إِلَى مِائَةٍ وَعِشْرِينَ فَإِذَا زَادَتْ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونِ وَفِي كُلِّ خَمْسِيْنَ حِقَّةٌ
جب اونٹوں کی تعداد پانچ (5) ہو جائے تو ان پر ایک بکری ، اور پھر ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے ۔ جب اونٹوں کی تعداد پچیسں (25) ہو جائے تو ان میں ایک سال کی اونٹنی یا دو سال کا اونٹ اور چھتیسں (36) میں دو سال کی اونٹنی اور چھیالیس (46) میں تین سال کی اونٹنی اور اکسٹھ (61) میں چار سال کی اونٹنی اور چھیتر (76) میں دو دو سال کی دو اونٹنیاں اور اکانوے (91) سے ایک سو بیسں (120) تک تین تین سال کی دو اونٹنیاں اور اگر تعداد اس سے زیادہ ہو جائے تو ہر چالیس (40) پر دو سال کی اونٹنی اور ہر پچاس (50) پر تین سال کی اونٹنی لا زم آئے گی
بنت مخاض :
ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جس کی عمر کا پہلا سال مکمل ہو کر دوسرا شروع ہو چکا ہو اور اس کی ماں حاملہ ہونے کے قابل ہو جائے اگرچہ ہنوز حاملہ نہ ہوئی ہو۔
ابن لبون:
وہ اونٹ جو دو سال کی عمر مکمل کر کے تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
بنت لبون:
ایسی اونٹنی جو دو سال کی عمر پوری کر کے تیسرے سال میں قدم رکھ چکی ہو۔
حقہ:
ایسی اونٹنی جو تین سال کی عمر پوری کر کے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہو۔
جذعہ:
وہ اونٹنی جو اپنی عمر کے چار سال مکمل کر کے پانچویں سال میں داخل ہو چکی ہو ۔
[نيل الأوطار: 81/3 ، سبل السلام: 791/2 ، التعليقات الرضية على الروضة الندية للألباني: 492/1]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو فریضہ زکوٰۃ کے بارے میں وہ تحریر لکھ کر دی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر مقرر فرمایا تھا اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دیا تھا۔ وہ یہ ہے کہ اونٹوں کی چوبیس (24) یا اس سے کم تعداد پر بکریاں ہیں ہر پانچ اونٹوں پر ایک بکری ہے۔ جب تعداد پچیس (25) سے بڑھ کر پینتیس (35) ہو جائے تو اس تعداد پر ایک سالہ اونٹنی ہے۔ اگر میسر نہ ہو تو پھر دو سالہ نر بچہ ہے۔ اور جب چھتیسں (36) سے تعداد بڑھ کر پینتالیس (45) تک پہنچ جائے تو ان میں دو سالہ اونٹنی ہے۔ اور جب چھیالیس (46) سے بڑھ کر ساٹھ (60) تک تعداد پہنچ جائے تو ان میں تین سالہ جوان اونٹ کی جفتی کے قابل اونٹنی ہے۔ اور جب اکسٹھ (61) سے بڑھ کر پچھتر (75) تک پہنچ جائے تو ان میں چار سالہ اونٹ ہے۔ اور جب چھیتر (76) سے تعداد بڑھ کر نوے (90) ہو جائے تو ان میں دو دو سالہ دو اونٹنیاں ہیں۔ اور پھر اکانوے (91) سے بڑھ کر تعداد ایک سو بیس (120) تک پہنچ جائے تو ان میں تین تین سالہ دو جوان اونٹنیاں ہیں جو اونٹ کی جفتی کے قابل ہوں۔ اور جب تعداد ایک سو بیس سے زائد ہو جائے تو پھر ہر چالیس اونٹوں پر ایک دو سالہ اونٹنی اور ہر پچاس پر تین سالہ اونٹنی اور جس کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو اس تعداد پر کوئی زکوٰۃ نہیں الا کہ ان کا مالک ادا کرنا چاہے۔
[بخاري: 1454 ، 1453 ، كتاب الزكاة: باب زكاة الغنم ، أبو داود: 1567 ، نسائى: 18/5 ، ابن ماجة: 1800 ، أحمد: 1131 ، دار قطني: 113/2 ، حاكم: 390/1 ، ابن خزيمة: 2261]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ (کے نصاب وغیرہ کی تفصیل ) لکھوائی تھی لیکن اسے عاملین کی طرف بھیجنے سے پہلے ہی فوت ہو گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسے نکالا اور وفات تک اسی پر عمل پیرا رہے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی وفات تک اس پر عمل کیا۔
[صحيح: صحيح أبو داود: 1386 ، كتاب الزكاة: باب زكاة السائمة ، أبو داود: 1568 ، ترمذي: 621 ، حاكم: 392/1 ، بيهقي: 88/4]
(ابن حزمؒ) یہ تحریر انتہائی زیادہ صحت کی حامل ہے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے علماء کی موجودگی میں اس پر عمل کیا اور کسی نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی۔
[المحلى: 20/6]
(نوویؒ) اس نصاب پر اجماع ہو چکا ہے۔
[المجموع: 300/5]
(ابوعبیدؒ ) انہوں نے بھی اجماع نقل کیا ہے۔
[الأموال: ص/ 363]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1