اولاد کو نماز سکھانے کا حکم
حدیث نبوی ﷺ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اپنے بچوں کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور جب وہ دس برس کے ہوں تو انہیں ترک نماز پر مارو اور ان کے بستر جدا کر دو۔‘‘
(ابو داؤد، الصلوۃ، باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ، ۵۹۴۔ ترمذی، الصلوۃ، باب ما جاء متی یؤمر الصبی بالصلوۃ؟ ۷۰۴، اسے امام حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا)
حدیث کی وضاحت
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو اپنی اولاد کے حوالے سے ایک اہم تربیتی ہدایت دی ہے۔ اس ہدایت میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
➊ سات سال کی عمر میں نماز کی تعلیم دینا
والدین کو حکم دیا گیا ہے کہ جب ان کے بچے سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں، تو انہیں نماز پڑھنے کا باقاعدہ حکم دیں۔
اس عمر میں بچوں کو نرمی، محبت اور حکمت سے نماز کی اہمیت بتا کر انہیں نماز کا عادی بنایا جائے۔
➋ دس سال کی عمر میں سختی کا اختیار
اگر بچہ دس برس کی عمر کو پہنچ جائے اور پھر بھی نماز نہ پڑھے تو والدین کو اجازت ہے کہ وہ تربیتی طور پر سختی اختیار کریں۔
یہاں "مارو” کا مطلب تربیتی انداز میں ایسی ہلکی سزا ہے جو اصلاح کا ذریعہ بنے، نہ کہ تشدد یا زیادتی۔
➌ بستر جدا کرنا
دس سال کی عمر چونکہ بلوغت کے قریب کا زمانہ ہے، اس لیے والدین کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ بچوں کے بستر الگ کر دیں۔
اس میں شرعی حکمت یہ ہے کہ بچوں کو طہارت، حیاء اور انفرادی ذمہ داری کا شعور دیا جائے۔
خلاصہ ہدایت
◈ عمر 7 سال: محبت اور شفقت سے نماز کی عادت ڈالنا۔
◈ عمر 10 سال: اگر نماز میں کوتاہی ہو تو تادیبی اقدام کرنا اور بستر علیحدہ کرنا۔
والدین پر لازم ہے کہ وہ دینی تربیت کے ان اہم مراحل کو سنجیدگی سے لیں تاکہ ان کی اولاد دین پر کاربند ہو۔