انگلیاں چٹکانے سے شیطان پیدا ہونے کا عقیدہ
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص141

سوال

کیا یہ صحیح ہے کہ انگلیاں چٹکانے سے شیطان پیدا ہوتا ہے؟

(تمہارا بھائی: اسماعیل)

الجواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوة إلا بالله

اسلامی شریعت میں انگلیاں چٹکانے کے دو مختلف حالات ہیں:

➊ نماز کے دوران انگلیاں چٹکانا

➋ نماز کے علاوہ انگلیاں چٹکانا

1. نماز میں انگلیاں چٹکانے کا حکم

نماز میں انگلیاں چٹکانا مکروہ ہے، اور اس کی ممانعت میں احادیث آئی ہیں، لیکن تمام احادیث ضعیف ہیں۔

📖 پہلی حدیث:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"نماز کی حالت میں اپنی انگلیاں مت چٹکاؤ۔”

(سنن ابن ماجہ: 965)

اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے "ضعیف الجامع” (حدیث: 6251) میں ضعیف قرار دیا ہے۔

زیلعی رحمہ اللہ نے "نصب الرایہ” (2/87) میں بھی اسے ضعیف کہا ہے۔

شیخ البانی نے "إرواء الغلیل” (حدیث: 378) میں فرمایا کہ یہ حدیث بہت ضعیف ہے، کیونکہ اس میں "حارث اعور” ایک ضعیف راوی ہے، اور بعض محدثین نے اسے متہم (متروک) بھی کہا ہے۔

📖 دوسری حدیث:

معاذ بن انس جہنی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"نماز میں ہنسنے والا، ادھر ادھر دیکھنے والا، اور انگلیاں چٹکانے والا سب ایک ہی درجے میں ہیں۔”

(دارقطنی: 64، سنن بیہقی: 2/279، إرواء الغلیل: 2/99-78، مسند احمد: 2/438، نصب الرایہ: 2/87)

یہ حدیث بھی ضعیف ہے، کیونکہ اس میں "زبان بن فائد” نامی راوی ہے، جو ضعیف ہے۔

مزید تفصیلات "مجمع الزوائد” (2/438) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

اس کے باوجود، نماز میں خشوع و خضوع کا تقاضا یہ ہے کہ غیر ضروری حرکات سے بچا جائے، اس لیے نماز میں انگلیاں چٹکانے سے گریز کرنا چاہیے۔

2. نماز کے علاوہ انگلیاں چٹکانے کا حکم

نماز سے باہر انگلیاں چٹکانے کی کوئی سخت ممانعت ثابت نہیں ہے۔

📖 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت ہے:

"میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کی، جب میں نے نماز میں انگلیاں چٹکائیں تو انہوں نے فرمایا: ‘تیری ماں تجھے گم پائے! کیا تو نماز میں انگلیاں چٹکاتا ہے؟'”

(مصنف ابن ابی شیبہ: 2/344، إرواء الغلیل: 2/99)

اس کی سند حسن ہے، اور یہ حدیث نماز کے اندر انگلیاں چٹکانے سے ممانعت کو ثابت کرتی ہے، مگر نماز کے باہر اس کا ذکر نہیں آیا۔

فقہاء نے عمومی ادب کے تحت بلا ضرورت انگلیاں چٹکانے کو مکروہ کہا ہے، خاص طور پر جب یہ کسی مجلس میں بے ادبی یا تکبر کے اظہار کے طور پر کیا جائے۔

📖 علامہ ابو الحسنات عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ "عمدۃ الرعایہ” (1/196) میں لکھتے ہیں:

"انگلیاں چٹکانا مکروہ ہے، اور یہ قومِ لوط کے اعمال میں شامل ہے، مگر جب یہ تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔”

📖 اسی طرح "رد المحتار” (1/431) میں بھی اس کی کراہت کا ذکر ہے۔

3. کیا انگلیاں چٹکانا قومِ لوط کا عمل ہے؟

بعض علماء نے قومِ لوط کے برے اعمال کی فہرست میں انگلیاں چٹکانے کو بھی شامل کیا ہے، لیکن اس کا کوئی مضبوط شرعی ثبوت موجود نہیں ہے۔

📖 علامہ آلوسی رحمہ اللہ "روح المعانی” (17/72) میں حسن بصری رحمہ اللہ سے ایک مرسل روایت نقل کرتے ہیں:

"قومِ لوط کے دس اعمال تھے، جن کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے: اغلام (بدفعلی)، کنکر مارنا، کبوتربازی، دف بجانا، شراب پینا، داڑھی تراشنا، لمبی مونچھیں رکھنا، سیٹی بجانا، تالیاں بجانا، اور ریشمی لباس پہننا۔”

(یہ روایت ابن عساکر، خطیب بغدادی، اور اسحاق بن بشیر نے بھی نقل کی ہے، اور امام قرطبی نے سورۃ العنکبوت (13/342) کی تفسیر میں اس کا ذکر کیا ہے۔)

اگرچہ بعض علماء نے قومِ لوط کے افعال میں انگلیاں چٹکانے کو بھی شمار کیا ہے، لیکن اس کا کوئی صحیح اور واضح ثبوت موجود نہیں ہے۔

4. نتیجہ

انگلیاں چٹکانے سے شیطان پیدا ہونے کا عقیدہ کسی بھی صحیح حدیث یا قرآن سے ثابت نہیں ہے، یہ محض ایک غلط تصور ہے۔

نماز کے دوران انگلیاں چٹکانا مکروہ ہے، کیونکہ یہ خشوع و خضوع کے خلاف ہے، لیکن اس کی ممانعت پر جتنی احادیث آئی ہیں وہ ضعیف ہیں۔

نماز کے علاوہ انگلیاں چٹکانے کی کوئی سخت ممانعت نہیں، لیکن اگر یہ تکبر، بے ادبی یا فضول حرکت کے طور پر ہو تو مکروہ قرار دیا گیا ہے۔

بعض علماء نے اسے قومِ لوط کے اعمال میں شامل کیا ہے، مگر اس بات کا شرعی ثبوت کمزور ہے۔

لہٰذا، انگلیاں چٹکانے سے شیطان پیدا ہونے کا عقیدہ بے بنیاد ہے، اور اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1