انسان بننے کی حکمت اور فرشتہ بننے کی خواہش کا جواب

اعتراض کی مختصر وضاحت

یہ سوال اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہمیں انسان بننا تھا تو کیا یہ ہم سے پوچھ کر کیا گیا؟ کیوں نہ ہمیں فرشتہ بنایا گیا تاکہ ہم جہنم کے خطرے سے بچ جاتے؟ اس اعتراض کا مختصر جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہیں اور مخلوق پر ان کے کاموں کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس سوال کے غیر منطقی ہونے کی وضاحت کے لیے پہلے انسانوں اور فرشتوں کے فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔

انسان اور فرشتوں میں بنیادی فرق

تخلیق کی نوعیت:

  • فرشتے نوری مخلوق ہیں، جبکہ انسان خاک سے پیدا کیے گئے ہیں۔

اختیار کی حیثیت:

  • فرشتے بے اختیار ہیں اور صرف اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔
  • انسان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اچھا یا برا عمل خود چن سکے۔

جنت اور جہنم کا تعلق:

  • فرشتوں کے لیے نہ جنت ہے نہ جہنم۔
  • انسان کو جنت یا جہنم میں جانے کا اختیار دیا گیا ہے، ان کے اعمال کے مطابق۔

فرائض اور اختیار:

  • فرشتے بغیر کسی اختیار کے عبادت اور اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔
  • انسان کو عبادت اور ذمہ داریوں کے ساتھ یہ آزادی دی گئی کہ وہ اپنے اعمال کا فیصلہ خود کرے۔

مقصدِ تخلیق:

  • فرشتوں کی تخلیق صرف عبادت کے لیے کی گئی ہے اور ان کی زندگی میں آزادی کا کوئی تصور نہیں۔
  • انسان کی تخلیق عبادت کے ساتھ آزمائش اور نیک عمل کے لیے کی گئی ہے، جس کے نتیجے میں اسے جزا یا سزا ملتی ہے۔

اعتراض کا منطقی تجزیہ

یہ اعتراض کہ اگر ہم فرشتے ہوتے تو جہنم سے بچ جاتے، غیر منطقی ہے۔ یہ بات اس وقت وزن رکھتی اگر اللہ نے یہ کہا ہوتا کہ تمام انسان جہنمی ہیں، لیکن قرآن اور حدیث میں ایسا کوئی بیان نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان:

اگر انسان سمندر کی جھاگ کے برابر بھی گناہ کر کے توبہ کرے تو اللہ نہ صرف توبہ قبول کرتے ہیں بلکہ ان گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتے ہیں۔

(ماخوذ از صحیح مسلم، جلد 8، صفحہ 275)

جنت اور فرشتوں کا موازنہ

  • سوال 1: جنت میں جانے کے لیے انسان کو کیا کرنا ہے؟
    جواب: اللہ کی فرماں برداری۔
  • سوال 2: فرشتے کیا کرتے ہیں؟
    جواب: اللہ کی فرماں برداری۔
  • سوال 3: اللہ کی فرماں برداری پر انسان کو کیا ملے گا؟
    جواب: جنت اور دائمی سکون۔
  • سوال 4: فرشتوں کو فرماں برداری کے بدلے کیا ملے گا؟
    جواب: کچھ بھی نہیں۔
  • سوال 5: جب فرماں برداری کا صلہ صرف انسانوں کو ملے گا، تو پھر فرشتہ بننے کی خواہش کیوں کی جائے؟

یہاں اعتراض کرنے والے کو سوچنا چاہیے کہ انسان بننے کا فائدہ یہ ہے کہ وہ اللہ کی فرماں برداری کرے اور جنت کے بدلے سکون کی زندگی حاصل کرے۔ فرشتہ بننے کی صورت میں یہ انعام نصیب نہ ہوتا۔

اللہ کی توبہ کی نعمت

  • اگر انسان سے گناہ ہو بھی جائیں تو اللہ نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔
  • گناہ چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں، سچی توبہ کرنے پر اللہ انہیں معاف کرتے ہیں اور انہیں نیکیوں میں بدل دیتے ہیں۔

یہ انسان کے لیے ایک بہت بڑی سہولت اور انعام ہے، جو فرشتوں کے پاس موجود نہیں۔

اعتراض کی حقیقت

درحقیقت، یہ اعتراض فرشتوں کے لیے زیادہ موزوں لگتا ہے کہ وہ صبح و شام اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں، لیکن انہیں جنت کا انعام نہیں ملتا۔ اس کے برعکس، انسان اپنی مختصر زندگی میں اللہ کی اطاعت کرے تو جنت کا حق دار بن جاتا ہے۔

لیکن چونکہ فرشتے بے اختیار ہیں، اس لیے انہیں اعتراض کرنے کا بھی حق نہیں۔ انسان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے اختیار اور اللہ کی رحمت کو سمجھنا چاہیے اور شکر گزاری کرنی چاہیے۔

نتیجہ

انسان کو اللہ کی دی گئی آزادی اور توبہ کی سہولت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ فرشتہ بننے کی خواہش کی بجائے، اللہ کی اطاعت اور نیک عمل کرتے ہوئے جنت کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے