خدا کا انکار: فلسفیانہ تکرار
"خدا نہیں ہے!” ایک جملہ جو انسانی ذہن کی پیچیدگی اور سوالوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کی علامت بن جاتا ہے۔
جب انسان خدا کے وجود سے انکار کرتا ہے، تو اس کی فطرت اور تجسس اسے دوبارہ اسی تلاش کی طرف لے آتا ہے۔
جس شک سے استدلال شروع ہوتا ہے، وہی شک ایک دائرے کی صورت میں ختم ہو جاتا ہے۔
فطرت انسانی: ایک اندرونی کشش
انسان کی فطرت میں وہی سوالات اور کشش شامل ہیں، جو اسے خدا کی جانب دھکیلتی ہیں۔
مثال کے طور پر:
- ہرن: جب اس کی ناف کی خوشبو ابھرتی ہے، وہ دیوانہ وار خوشبو کی تلاش میں دوڑتا ہے۔ یہ خوشبو کہیں اور نہیں، بلکہ اس کے اپنے وجود سے پھوٹتی ہے۔
- چوزہ: اپنی ماں کو کھو دینے کے بعد، ہر چیز کو اپنی ماں سمجھ کر تلاش کرتا ہے۔
- انسان: اپنی عقل اور روح کے ساتھ، اسی فطرتی حقیقت کی طرف کھنچتا ہے جو اس کی تخلیق کا حصہ ہے۔
انسانی جبلت اور خدا کا ادراک
انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے اندر خدا کا ادراک ودیعت کیا گیا ہے۔
ایک بچہ، جیسے ہی پیدا ہوتا ہے، فوراً ماں کے دودھ کے لیے تھنوں کا رخ کرتا ہے۔ یہ علم اس کی فطرت کا حصہ ہے۔
انسانی فطرت اسے بار بار اس حقیقت کی طرف لاتی ہے کہ خدا کا وجود اس کے دل و دماغ میں موجود ہے۔
فطرت کے قوانین اور ایمانی کشش
قرآن پاک کہتا ہے: "اپنی فطرت پہ سیدھا رخ کیے چلتے جاؤ!” فطرت کا یہ سیدھا رخ انسان کو خدا کے قریب لاتا ہے، جیسے:
- روہی کی گائے: ہزاروں میل دور سے اپنی زمین کی طرف پلٹتی ہے، کیوں کہ اس کی فطرت اسے کھینچتی ہے۔
- بدھ مت کا آغاز: بدھا کے گیان کی تلاش، جو انسان کی فطری جستجو کی عکاس ہے۔
مذاہب اور انسانی فطرت
گگن اگروال، جو ایک ہندو تھا، اپنی فطرتی سوچ کی بنا پر خدا کو ایک ایسی ہستی مانتا ہے جو:
- بے نیاز ہو۔
- کسی کی محتاج نہ ہو۔
- تمام طاقتوں کا منبع ہو۔
- ایک مکمل فلم ساز ہو جو ابتدا سے انتہا تک ہر چیز کو کنٹرول کرے۔
یہی فطرتی کشش انسان کو بتوں سے ہٹا کر خدا کے حقیقی تصور کی طرف لے آتی ہے۔
دین فطرت اور اسلام
تمام مذاہب کا بنیادی نظریہ فطرت انسانی پر مبنی ہے، لیکن صرف دین ابراہیمی اس فطری حقیقت کے عین مطابق ہے:
- اسلام: ایک واحد خدا، آخرت، کتاب اور فرشتوں کے تصور کے ساتھ، انسان کی فطری خواہشات کو پورا کرتا ہے۔
- بدھ مت اور دیگر مذاہب: انسانی سوچ کی بنیاد پر بنے فارمولے ہیں، جو خدا کے حقیقی تصور سے محروم ہیں۔
فطرت کا فیصلہ اور دین کی قبولیت
مہران، گگن اگروال، اور دوسرے تمام انسانوں کی فطرت، دین ابراہیمی کو فطرت کے عین مطابق تسلیم کرتی ہے۔
"اپنی فطرت پہ سیدھا رخ کیے چلتے جاؤ”
کا قرآنی حکم، انسانی فطرت کو اس کے حقیقی مقصد کی طرف لے جاتا ہے۔
ایمان ایک "پھٹکڑی” کی طرح ہے، جو انسانی دل کو گدلے خیالات سے پاک کر کے خدا کے حقیقی نور سے منور کرتی ہے۔
اختتامیہ
انسان کا دل اور دماغ، اس کی روح اور فطرت، سب مل کر ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں: "خدا کا وجود”۔
فطرت کے اس سفر کو سمجھنے اور اپنانے کے لیے، ضروری ہے کہ ہم اپنی فطرت کو تسلیم کریں اور اپنے اندر کے خدا کے نور کو پہچانیں۔