انسانی تجسّس، علم کا ماخذ اور تحقیق کا نظام
تحریر: مجیب الحق حقی

انسان کا تجسّس اور تحقیق

انسان کی فطرت میں تجسّس پوشیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر مظہر کی حقیقت اور جواز جاننے کی جستجو کرتا ہے۔ ہر مظہر ایک منظم سسٹم رکھتا ہے اور انسان اسی نظام کی وضاحت کے لیے علم حاصل کرتا ہے۔ علم کی تعریف یہ ہے کہ کسی چیز یا مظہر کی علمی تشریح یا عملی جانکاری حاصل کرنا۔ تحقیق دراصل چھپے ہوئے رازوں کو جاننے کی کوشش کا نام ہے۔

انسان اور دوسرے جانداروں میں فرق

یہ سوال کہ انسان ہی کیوں ہر مظہر کے جواز کی تلاش کرتا ہے، کا جواب یہ ہے کہ انسان میں عقل، دانش اور تجسّس جیسی غیر معمولی صلاحیتیں موجود ہیں۔ یہ صلاحیتیں کسی اور مخلوق میں اس پیمانے پر نہیں ملتیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے ماحول اور قدرت کے نظام کو سمجھنے اور تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ گویا علم اور انسان کا ایک گہرا تعلق ہے۔

کائنات اور علوم کی ابتدا

کائنات کی تخلیق اور اس کے ساتھ علوم کی پیدائش ایک اہم سوال ہے۔ مغربی دنیا اپنی سائنسی تحقیقات اور دریافتوں پر فخر کرتی ہے، لیکن یہ عجیب حقیقت ہے کہ فلسفی اور اسکالرز اکثر علم کے بنیادی ماخذ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انسان کا عمل، جیسے دیکھنا، سننا اور حرکت کرنا، ایک داخلی اور خارجی نظام پر منحصر ہے۔ اسی طرح تحقیق اور غور و فکر کا عمل بھی اندرونی اور بیرونی نظم کا محتاج ہے۔

علم کے نظام کی تفہیم: انسان اور کائنات کا تعلق

اندرونی اور بیرونی نظام

انسان کے حواس خمسہ اور جسم کا بیرونی دنیا کے ساتھ تعلق ایک منظم عمل ہے۔ مثال کے طور پر:

  • دیکھنا: منظر باہر ہوتا ہے، لیکن بصارت کا نظام آنکھ کے اندر کام کرتا ہے۔
  • سننا: آواز باہر سے آتی ہے، لیکن سماعت کا عمل دماغ کے اندر مکمل ہوتا ہے۔
  • چلنا: انسان کا ارادہ اور قدم اندرونی ہیں، لیکن زمین کا ردعمل خارجی ہے۔

یہی اصول غور و فکر اور تحقیق پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ کسی مظہر پر تحقیق کرتے ہوئے، انسان کے ذہن میں موجود پوشیدہ نظام اور بیرونی علوم آپس میں تعامل کرتے ہیں۔ مثلاً ایٹم کی تحقیق کے دوران، انسان کے شعور اور ایٹم میں چھپے علوم کے درمیان ایک ہم آہنگی کام کرتی ہے۔

عقل کی نوعیت

عقل کو ہم عمومی طور پر ایک سادہ مظہر سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ایک پیچیدہ نظام ہے۔ یہ عقل بیرونی علوم سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے، لیکن یہ خود علم تخلیق نہیں کرتی بلکہ علم کی دریافت میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ عقل کے بارے میں ہمارا محدود علم اس کی اصل نوعیت کو پوری طرح سمجھنے میں رکاوٹ ہے۔

علم کی دریافت اور تحقیق کا نظام

انسانی تجسّس اور علم کا ماخذ

تحقیق اور ریسرچ انسان کے تجسّس کا نتیجہ ہے۔ انسان علوم کو دریافت کرتا ہے، لیکن وہ اس بات پر کم ہی غور کرتا ہے کہ علم کی تخلیق اور اس کے ماخذ کا نظام کیا ہے۔ ہم اپنے مشاہدات اور تجربات کے ذریعے نئے قوانین دریافت کرتے ہیں، لیکن اس عمل کی گہرائی پر توجہ کم دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علوم انسان تک کیسے پہنچتے ہیں؟

مغربی اور الحادی نقطہ نظر

مغربی فلسفہ اور الحادی سائنس علم کے ماخذ کے حوالے سے واضح مؤقف پیش کرنے میں ناکام ہیں۔ الحاد کے مطابق کائنات اور علوم ایک اتفاقیہ تخلیق ہیں، مثلاً "بگ بینگ” اور ارتقاء کے نظریات۔ اس نقطہ نظر کے مطابق تمام علوم مظاہرِ کائنات کے ساتھ خود بخود پیدا ہوئے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ علم اور اس کے سسٹمز خود بخود کیسے وجود میں آ سکتے ہیں؟

اسلام اور علم کا ماخذ

اسلام کے مطابق علم کا ماخذ اللہ تعالیٰ ہے۔ قرآن کہتا ہے:
"وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا”
"اور اللہ نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھا دیے۔”
(البقرہ: 31)
یعنی اللہ نے آدم علیہ السلام کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ علم پہلے سے موجود تھا اور انسان کو ودیعت کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علوم کی بنیاد پہلے سے رکھی گئی تھی اور انسان کو ان علوم کو سمجھنے اور دریافت کرنے کی صلاحیت دی گئی۔

تحقیق اور انسانی ذہن کا نظام

انسانی دماغ اور علم کی منتقلی:
انسان کو ایسے تخلیق کیا گیا کہ اس کے دماغ میں کائناتی علوم کو سمجھنے کے کوڈز یا پاس ورڈ محفوظ کیے گئے۔ یہ کوڈز انسان کے غور و فکر اور تحقیق کے دوران فعال ہوتے ہیں اور نئے خیالات پیدا کرتے ہیں۔ جب انسان کسی مظہر پر تحقیق کرتا ہے، تو اس کا ذہن ان پوشیدہ کوڈز کو استعمال کر کے کائناتی رازوں کو عیاں کرتا ہے۔

عقل کی محدودیت اور روح کی اہمیت:
انسان اپنی عقل کے ذریعے کائنات کے مظاہر کو تو سمجھ سکتا ہے، لیکن خالق کی حقیقت کو پوری طرح نہیں جان سکتا۔ خالق کو سمجھنے کے لیے انسان کو اپنی روح کی گہرائیوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ روح انسان کی تخلیق کے ماحول سے براہ راست تعلق رکھتی ہے۔

الحاد کی محدودیت اور اسلام کی وضاحت

الحادی فلسفہ علم کے ماخذ کی وضاحت میں ناکام رہا ہے۔ یہ نظریہ نہ صرف علم کی تخلیق بلکہ تحقیق کے نظام کی تفہیم میں بھی الجھا ہوا ہے۔ اس کے برعکس، اسلام علوم کے ماخذ، ان کی انسان تک منتقلی، اور تحقیق کے نظام کی عقلی اور سائنسی وضاحت پیش کرتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے