دنیا: ایک قید یا راستہ؟
دنیا ایسی دیواروں میں قید ہے جہاں نہ کوئی دروازہ ہے نہ کھڑکی، نہ کوئی راستہ اور نہ ہی کوئی درز۔ یہ دیواریں ایسی بے عیب ہیں کہ ان میں کوئی کمزوری نظر نہیں آتی۔ نہ آغاز کا علم ہے نہ انجام کی خبر۔ انسان اس قید میں حیران ہے کہ یہ دنیا گھر ہے، راستہ ہے یا اندھیری کوٹھڑی؟ ہر طرف حیرت، خوف اور الجھن کا سامنا ہے۔
وجود اور شعور کا مخمصہ
- ہستی سوال در سوال: انسانی وجود پیچیدگیوں سے بھرا ہوا ہے۔
- حیات الم در الم: زندگی دکھوں کے تسلسل کا نام ہے۔
- شعور پیچ در پیچ: شعور خود بے شمار سوالات کی گتھیاں ہے۔
انسان سوچتا ہے کہ کیا یہ کائنات محض ایک قید خانہ ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کا کوئی راستہ، کوئی حل ہے بھی یا نہیں؟ یہ سوالات انسان کو اس کے اندرونی اور بیرونی تعلقات پر غور کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
علم: روشنی کی تلاش
انسان اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اندر کے اندھیرے کو روشنی صرف علم کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ علم کیسا ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے تین بڑے نظریاتی گروہ ہیں:
1. اہلِ سفسطہ:
- علم کو غیر ممکن سمجھتے ہیں۔
- ان کے نزدیک کچھ بھی قطعی طور پر معلوم نہیں کیا جا سکتا۔
2. اہلِ عقل:
- علم کو ممکن مانتے ہیں لیکن صرف مشاہدے اور تجربے کے ذریعے۔
- غیب کی حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے۔
3. اہلِ مذہب:
- علم کو ممکن مانتے ہیں کیونکہ وحی کو ممکن سمجھتے ہیں۔
- ان کے نزدیک شہود (مشاہدہ) حس سے معلوم ہوتا ہے اور وحی سے بامعنی بنتا ہے۔
غیب و شہود کا تعلق
اہلِ مذہب کا نقطہ نظر:
غیب شعور اور وجود کا بنیادی مرکز ہے، اور شعور ایک برزخ کی مانند ہے جہاں غیب اور شہود آپس میں ملتے ہیں۔
اہلِ عقل کی فتح:
تاریخ میں اہلِ عقل نے پہلے اہلِ سفسطہ کو شکست دی اور پھر اہلِ مذہب کو۔ اس فتح نے انسان کے رویے اور دنیا کو بدل دیا، لیکن نتیجہ ایک المیہ نکلا۔
جدید انسان کی المیہ داستان
معنی سے خالی زندگی:
تحریکِ تنویر (Enlightenment) سے لے کر مابعد جدیدیت (Postmodernism) تک، انسان اپنے وجود کے معنی، امید اور جمال کھو بیٹھا ہے۔
اوپن ہائیمر کا بیان:
ایٹمی دھماکے کے بعد مین ہیٹن پروجیکٹ کے سائنسدان اوپن ہائیمر کا کہنا تھا، "اب ہم سب کُتی کے بچے ہیں۔” لیکن جدید انسان اس سے بھی بدتر حالت میں ہے۔ وہ ایک ایسی نامعلوم مخلوق بننے کی کوشش کر رہا ہے جو نہ انسان ہے، نہ حیوان، نہ مشین۔
علم کی شرط: غیب کا ماننا
علم کی بنیاد دو اصولوں پر ہے:
- شعور کی اصل کا تعین، تاکہ عقل کو ایک بنیاد مل سکے۔
- شعور سے باہر کسی غیب کا ماننا، تاکہ دریافت کا سفر ممکن ہو سکے۔
جدید سائنس بھی اپنے علم کے لیے "غیب” فرض کرتی ہے، لیکن یہ غیب ایک عقلی مفروضہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید علم کی بنیاد میں لایعنیت (Absurdity) موجود ہے۔
مذہب اور علم کا تعلق
غیب بالشہود:
وحی کا دائرہ، جو غیب کو شہود کے ساتھ جوڑتا ہے۔
شہود بالغیب:
نظری اور عرفانی علوم، جو اپنی تشکیل اور معنویت کے لیے وحی پر منحصر ہیں۔
نتیجہ
جدید انسان غیب کے بغیر علم کو ممکن سمجھتا ہے، لیکن اس کی یہ کوشش اسے مزید بے معنویت اور ناامیدی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ مذہبی نقطہ نظر کے بغیر، علم کی تشکیل اور بقا ممکن نہیں۔