تمہید
عوام کی عمومی عادت ہے کہ وہ حالات کو سرسری انداز میں دیکھتی ہے اور ان کے پیچھے چھپے عوامل کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ لیکن حیرت اس وقت ہوتی ہے جب باشعور افراد بھی اسی سطحی سوچ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
پاکستانی انتخابات کا "سنسنی خیز” تماشا
ہر انتخابی دور میں قوم ایک نئی امید باندھتی ہے کہ شاید اب ان کی تقدیر جاگ اٹھے۔ جذباتی نعرے، روٹی، بجلی، آٹا، دودھ، اور شہد کی نہریں بہانے کے خواب قوم کو بیچ دیے جاتے ہیں، لیکن ان کا مقصد محض دنیاوی فائدے اور جسمانی آسائشوں تک محدود ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں بنی اسرائیل کے حوالے سے فرمایا گیا:
"زمین کی پیداکردہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز (وغیرہ)”
(البقرۃ: 61)۔
یہ رویہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جب کوئی قوم عظیم مشن کو چھوڑ کر صرف مادی خواہشات کے پیچھے دوڑتی ہے تو نتیجہ ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
عالمی نظام اور انسانیت کی موجودہ حالت
دنیا سے قرآن کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے، اور عالمی نظام میں صرف دنیاوی ترقی کو سب کچھ سمجھا جانے لگا ہے۔ ایک ایسی دنیا بنائی جا رہی ہے جو نہ صرف غربت اور بھوک سے آزاد ہو بلکہ "آسمانی شرائع” سے بھی مکمل طور پر خالی ہو۔
روٹی اور سرمایہ دارانہ نظام کا کھیل
دنیا کو "روٹی” کے بہانے پر فریب ترقی کا خواب دکھایا جا رہا ہے، لیکن اصل ہدف انسان کو خدا کے مقام پر فائز کرنا ہے۔ یہ انسانیت پرستی (Humanism) کا منصوبہ دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی پروردہ ہے، جہاں خدا کو عبادت خانوں تک محدود رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
طائفہ منصورہ: امت کا محافظ طبقہ
احادیث اور عقیدہ کی کتب میں ایک طبقے کا ذکر کیا گیا ہے، جسے "طائفہ منصورہ” کہا جاتا ہے۔ یہ طبقہ ہر دور میں باطل سے لڑتا رہے گا اور کبھی ہار نہیں مانے گا۔ اس کے دو بنیادی کردار ہیں:
- اہلِ علم و دانش: جو فکری طور پر باطل کو شکست دیتے ہیں۔
- مجاہدین: جو عملی طور پر باطل کے خلاف لڑتے ہیں۔
یہ طبقہ امت کی بقا اور حق کی حفاظت کا ضامن ہے اور قیامت تک قائم رہے گا۔
اصل غلامی: فکری شکست
اصل شکست یہ نہیں کہ کوئی قوم عسکری طور پر مفتوح ہو جائے، بلکہ اصل غلامی یہ ہے کہ قوم اپنے فکری معیار کو کھو بیٹھے اور باطل نظریات کو اپنا لے۔
عقیدۂ توحید: عالمی شرک سے بغاوت
آج کے عالمی نظام کا سب سے بڑا شرک، انسانیت کو خدا کا درجہ دینا ہے۔ اس نظام میں ڈیموکریسی، سیکولرزم، سرمایہ داری، آزادی اور دیگر باطل تصورات کو ایک مکمل پیکیج کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
اسلامی تحریکوں کا چیلنج
اسلامی تحریکیں، اپنے اصل مشن کو بھول کر عالمی نظام کے سانچے میں فٹ ہونے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف اسلامی اقدار کی نفی کرتا ہے بلکہ اسلامی بیداری کی جدوجہد کو بھی کمزور کر رہا ہے۔
اختتام
اسلامی عقیدہ کا اصل جوہر یہی ہے کہ جاہلیت کے ہر مظہر کو مسترد کر کے صرف اور صرف اللہ کی حاکمیت کو قبول کیا جائے۔ اس کے بغیر امت کی حقیقی آزادی ممکن نہیں۔