انبیاء و اولیاء کے وسیلے سے دعا کرنے کی حقیقت
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص96

سوال:

میں نے مولانا مفتی محمد شفیع کی معارف القرآن میں سورۃ الانعام کے تحت پڑھا ہے کہ انہوں نے انبیاء و اولیاء کے وسیلے سے دعا کو جائز قرار دیا ہے۔ کیا ان کا قول صحیح ہے یا غلط؟

الجواب

الحمد للہ، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوة الا باللہ۔

1۔ وسیلے کی مشروع صورتیں

صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے صرف اس کے اسماء و صفات کے ساتھ وسیلہ پکڑتے تھے۔

📖 صحیح بخاری (1/302) اور صحیح مسلم (2/353) میں تین آدمیوں کا واقعہ ذکر ہے جو غار میں پھنس گئے تھے اور انہوں نے اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے دعا کی، جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں انبیاء اور صالحین کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے، مگر کسی بھی دعا میں وسیلہ بالذات (یعنی کسی نبی یا ولی کے وجود کا وسیلہ) ذکر نہیں کیا۔ اگر یہ جائز اور مستحب ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حکم دیتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تعلیم فرماتے۔

صحیح بخاری (1/137) اور مشکوٰۃ (1/132) میں یہ بھی ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بارش کے لیے عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی، خود دعا کی اور عباس رضی اللہ عنہ نے بھی دعا کی، لیکن کسی نبی یا ولی کے وجود کے وسیلے سے دعا نہیں کی۔

📖 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ وَابتَغوا إِلَيهِ الوَسيلَةَ وَجـٰهِدوا فى سَبيلِهِ لَعَلَّكُم تُفلِحونَ﴾
(المائدہ: 35)

ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کا قرب تلاش کرو، اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم فلاح پا سکو۔”

تمام مفسرین متفق ہیں کہ اس آیت میں وسیلے سے مراد "ایمان، اعمال صالحہ اور اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات” ہیں، نہ کہ کسی نبی یا ولی کا وجود۔

فیض الباری (2/379) اور منہاج التأسيس (ص 157) میں واضح طور پر ذکر ہے کہ علماء میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صالحین کے وسیلے سے ان کی وفات کے بعد دعا کرنا جائز ہے۔

2۔ وسیلے کے حق میں دیے جانے والے دلائل کا تحقیقی جائزہ

پہلی دلیل: نابینا صحابی کی حدیث
بعض لوگ اس حدیث کو دلیل بناتے ہیں جو ترمذی اور مشکوٰۃ (1/769، رقم: 2695) میں موجود ہے کہ ایک نابینا صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروائی۔

جواب:

◈ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دعا کی تھی، اور نابینا صحابی نے دعا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کروانے کا وسیلہ اختیار کیا تھا، نہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کا۔
◈ یہ وسیلہ "بدعاء الصالح” (نیک بندے کی دعا کروانے) کی دلیل ہے، نہ کہ وسیلہ بالذات کی۔
◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "القاعدۃ الجلیلۃ” اور "التوسل والوسیلہ” میں وضاحت کی ہے کہ یہ حدیث وسیلے کے جواز کے حق میں نہیں جاتی۔

دوسری دلیل: اعرابی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا کر دعا کرنا
بعض لوگ بیہقی کی ایک روایت پیش کرتے ہیں جس میں ذکر ہے کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آیا اور آپ سے دعا کرنے کی درخواست کی۔

جواب:

◈ یہ روایت سند کے بغیر ذکر کی گئی ہے، اور منقطع (من گھڑت) ہے۔
◈ الصارم المنکی (ص 202)، فتح المنان (ص 352)، اور منہاج التأسيس (ص 169) میں اس روایت کی سخت تردید کی گئی ہے۔

تیسری دلیل: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا کروانا

جواب:

◈ یہ حدیث صحیح بخاری (1/137) میں ہے، اور یہ صالح شخص کی دعا کروانے کے جواز کی دلیل ہے، نہ کہ کسی نبی یا ولی کے وجود کے وسیلے سے دعا مانگنے کی۔
◈ اگر وسیلہ بالذات جائز ہوتا تو صحابہ کرام سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی قیادت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جاتے اور وہاں دعا کرتے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
◈ یہ حدیث وسیلہ بالذات کے خلاف ہے، اس کے حق میں نہیں۔

3۔ وسیلے کے متعلق بعض موضوع اور ضعیف روایات

(1) حضرت آدم علیہ السلام کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرنا
یہ حدیث موضوع (من گھڑت) ہے۔

◈ طبرانی، مجمع الزوائد (8/253)، اور حاکم (2/615، 3/333) نے اس کی سند کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔
◈ الضعیفہ (1/38، رقم: 25) میں شیخ البانی نے اسے موضوع ثابت کیا ہے۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ (مرتبے) کے وسیلے سے دعا کرنے کی حدیث
یہ حدیث باطل اور بے اصل ہے۔

◈ السلسلۃ الضعیفہ (رقم: 22) میں ثابت کیا گیا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔

4۔ وسیلہ بالذات کے خلاف صحابہ کرام کا عمل

صحابہ کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاہ و مرتبے کے وسیلے سے دعا نہیں کرتے تھے۔

◈ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعا کروائی۔
◈ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید بن اسود سے دعا کروائی۔
◈ حضرت ضحاک بن قیس نے بھی صالحین سے دعا کروائی، نہ کہ کسی نبی یا ولی کے وجود کا وسیلہ لیا۔

یہ واضح دلیل ہے کہ وسیلہ بالذات کا عقیدہ نہ تو قرآن و حدیث سے ثابت ہے، نہ ہی صحابہ کرام کے عمل سے۔

نتیجہ

لیکن کسی نبی یا ولی کے وجود کے وسیلے سے دعا کرنا نہ تو قرآن سے ثابت ہے، نہ ہی حدیث سے، اور نہ ہی صحابہ کے عمل سے۔

لہٰذا، مفتی محمد شفیع صاحب کا وسیلہ بالذات کو جائز کہنا غلط ہے، کیونکہ یہ قرآن و حدیث اور سلف صالحین کے عمل کے خلاف ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1