خواتین پر جنسی تشدد—ایک معمول
ایک رپورٹ کے مطابق، امریکی فوج میں خواتین کو جنسی حملوں اور ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے امریکہ میں خواتین کے خلاف تشدد کی ایک بڑی شکل کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ فوج میں بھرتی ہونے والی خواتین صرف جنگی خطرات ہی نہیں بلکہ اپنے ہی ساتھیوں کی جانب سے جنسی حملوں کا بھی سامنا کرتی ہیں۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، زیادہ تر متاثرین 25 سال سے کم عمر، جونیئر رینکس کی خواتین ہوتی ہیں۔ (پیراگراف: 22)
وزرائے دفاع کے خلاف اجتماعی مقدمہ
امریکی فوج میں خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو سابق وزرائے دفاع، ڈونلڈ رمز فیلڈ اور رابرٹ گیٹس، کے خلاف اجتماعی مقدمہ دائر کیا گیا۔ متاثرین نے الزام لگایا کہ ان وزرا نے جنسی حملوں کی تحقیقات اور مجرموں کو سزا دینے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا، اور شکایت درج کرانے والوں کو خاموش رہنے پر مجبور کیا گیا۔ (پیراگراف: 23)
واقعات کی کم رپورٹنگ
اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، فوج میں زیادہ تر جنسی حملوں کی رپورٹ درج نہیں کروائی جاتی، جس کی وجہ سے حقیقی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ محکمہ دفاع کے ایک سروے کے مطابق، ایکٹو ڈیوٹی پر موجود 4.4 فیصد خواتین اور 0.9 فیصد مردوں نے اعتراف کیا کہ وہ گزشتہ سال کے دوران جنسی حملے کا نشانہ بنے۔ تاہم، صرف 29 فیصد خواتین اور 14 فیصد مردوں نے اپنی شکایت درج کرائی۔ (پیراگراف: 24)
شکایت کرنے کا خوف
جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے فوجی، شکایت درج کروانے سے اس لیے ہچکچاتے ہیں کہ انہیں اپنی ملازمت کھونے کا ڈر ہوتا ہے۔ اگر حملہ آور ان کے سینئر افسران میں سے ہوں تو ان کے خلاف کارروائی کرنا مزید مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، کمانڈرز عام طور پر متاثرین کو انتقامی کارروائیوں سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ (پیراگراف: 27-28)
خاتون کانگریس ممبر کی گواہی
31 جولائی 2008ء کو سی این این کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کانگریس کی ایک خاتون رکن جین ہرمین اس وقت حیران رہ گئیں جب انہیں فوجی ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہر 10 میں سے 4 خواتین فوجی سروس کے دوران جنسی حملوں کا نشانہ بنتی ہیں۔ جین ہرمین نے مزید کہا کہ فوج میں خواتین کو دشمن کی گولی سے زیادہ اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں زیادتی کا خطرہ ہوتا ہے۔ 2007ء میں فوج میں رپورٹ ہونے والے 2212 جنسی حملوں کے کیسز میں سے صرف 8 فیصد عدالت تک پہنچے، جبکہ سویلین سوسائٹی میں یہ شرح 40 فیصد ہے۔
متاثرہ خواتین کی تباہ حال زندگیاں
امریکی اخبار ڈینور پوسٹ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق، امریکی فوج میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین کو انصاف تو نہیں ملتا، بلکہ انہیں خاموش رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ کولوریڈو ایئر فورس اکیڈمی میں 142 کیس رپورٹ ہوئے، مگر کسی مجرم کو سزا نہیں دی گئی۔ اسی طرح 1991ء میں نیوی ٹیل ہک کنونشن میں سو سے زائد افسران نے درجنوں خواتین کو ہراساں کیا، مگر کسی کو سزا نہیں ملی۔
متاثرہ خواتین کا کرب
60 ایسی خواتین سے گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ ان میں سے زیادہ تر نے انصاف کے فقدان کے باعث شکایت درج نہیں کرائی۔ کئی خواتین نے بتایا کہ اس صدمے کے باعث ان کی زندگیاں برباد ہو گئیں، وہ منشیات اور شراب نوشی کا سہارا لینے لگیں، اور شدید نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو گئیں۔
مغربی عورت کا المیہ: فطرت سے بغاوت کا نتیجہ
مغربی تہذیب نے خواتین کو مردوں کے برابر لانے کی کوشش میں انہیں گھر اور بچوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ملازمت کے بوجھ تلے بھی دبا دیا۔ نتیجتاً، وہ مردوں کے دل بہلانے کا کھلونا بن کر رہ گئی ہیں۔ کئی دہائیوں کے تجربے کے بعد، مغربی خواتین اب دوبارہ گھر کی پناہ گاہ میں واپس جانا چاہتی ہیں۔
برطانوی خواتین کا سروے: ‘سپر وومن’ رول ماڈل سے بیزاری
برطانیہ کے ایک سروے کے مطابق، 94 فیصد ملازمت پیشہ خواتین گھریلو اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے شدید پریشان ہیں اور اس "سپر وومن” ماڈل سے نجات چاہتی ہیں۔
سرمایہ داری کی سازش اور خواتین کا استحصال
آزادئ نسواں کے دلکش نعروں کے پیچھے، دراصل سرمایہ دارانہ نظام کی ایک گہری سازش کارفرما تھی، جس کا مقصد خواتین کو سستی لیبر کے طور پر استعمال کرنا تھا۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغرب میں خاندانی نظام تقریباً تباہ ہو چکا ہے، اور خواتین اب اس استحصال سے نجات چاہتی ہیں۔
عورت کی معاشی جدوجہد: خوشحالی یا دھوکہ؟
یہ خیال کہ خواتین کو ملازمت میں دھکیلنے سے عام آدمی خوشحال ہو گیا ہے، ایک فریب ہے۔ امریکی پروفیسر ہک گٹ مین کے مطابق، امریکہ میں عام محنت کش کی اجرت 1978ء سے مسلسل جمود کا شکار ہے، جبکہ امیر طبقہ مزید امیر ہوتا جا رہا ہے۔ خواتین کی محنت کے باوجود، آج عام امریکی خاندان کی معیشت پہلے سے زیادہ خراب ہے۔
اسلام کا نقطہ نظر: عورت کا حقیقی تحفظ
اسلام نے خواتین پر معاشی بوجھ ڈالنے کے بجائے ان کی کفالت مردوں کی ذمہ داری بنائی ہے، جس کی وجہ سے مسلم دنیا میں خاندان کا ادارہ اب بھی مستحکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی خواتین تیزی سے اسلام کی طرف مائل ہو رہی ہیں، کیونکہ اسلامی نظام میں خواتین کو عزت، وقار، اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔