سوال:
اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟
"اللہ کی قسم مجھے اپنے بعد تم پر شرک کا کوئی خوف نہیں”
(بخاری: 1344، مسلم: 2296)
بعض لوگ اس حدیث کو دلیل بنا کر کہتے ہیں کہ امت محمدیہ میں شرک کبھی ہو ہی نہیں سکتا۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب:
اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ دیگر احادیث اور قرآن مجید کے متعلقہ بیانات کو بھی مدنظر رکھا جائے۔
حدیث کا مطلب:
یہ حدیث پوری امت میں شرک کے وقوع کی مکمل نفی نہیں کرتی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پوری امت شرک میں مبتلا نہیں ہوگی۔ ہر زمانے میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو شرک سے بچیں گے اور خالص توحید پر قائم رہیں گے، لیکن اس کے ساتھ کچھ لوگ شرک میں بھی مبتلا ہوں گے۔
دیگر احادیث سے وضاحت:
امت کے قبائل کا مشرکین کے ساتھ شامل ہونا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں اور میری امت کے قبائل بتوں کی عبادت نہ کرنے لگیں۔”
(صحیح بخاری: 7116، صحیح مسلم: 2906)
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ امت کے کچھ افراد شرک میں مبتلا ہوں گے۔
قبیلہ دوس کی عورتوں کا ذی الخلصہ بت کے گرد طواف:
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
"قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک قبیلہ دوس کی عورتیں ذی الخلصہ بت کے گرد طواف نہ کریں۔”
(صحیح بخاری: 7116، صحیح مسلم: 2906)
یہ حدیث بھی امت میں شرک کے وجود کی تصدیق کرتی ہے۔
قرآن مجید سے وضاحت:
ایمان اور شرک کی آمیزش سے بچنے والے:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں ظلم (شرک) کی آمیزش نہ کی، انہی کے لیے امان ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔”
(سورۃ الانعام: 82)
نبی کریم ﷺ نے اس آیت میں "ظلم” سے مراد شرک لیا ہے، جیسا کہ حدیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
صحابہ کرام نے اس آیت کے نزول پر تشویش ظاہر کی کہ "ہم میں کون ہے جو ظلم نہیں کرتا؟” رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی:
"یہاں ظلم سے مراد شرک ہے، جیسا کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: ‘اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔'”
(صحیح مسلم)
اہم نکات:
- حدیث کے عمومی معنی: مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ امت کے تمام افراد شرک میں مبتلا نہیں ہوں گے۔ شرک کرنے والے افراد موجود ہوں گے، لیکن یہ امت کے تمام لوگوں پر محیط نہیں ہوگا۔
- شرک کا قیامت کے قریب زیادہ ہونا: قیامت کے قریب شرک میں مبتلا ہونے کے واقعات زیادہ ہوں گے، جیسا کہ مختلف احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔
- قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت: قرآن مجید اور احادیث دونوں اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ امت مسلمہ میں کچھ افراد شرک میں مبتلا ہوں گے، لیکن امت کا ایک حصہ ہمیشہ شرک سے محفوظ رہے گا۔
نتیجہ:
مذکورہ دلائل کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ امت محمدیہ میں شرک کا امکان موجود ہے، لیکن یہ کسی بھی دور میں پوری امت کو شامل نہیں کرے گا۔ شرک کرنے والے افراد یا گروہ قیامت کے قریب زیادہ ظاہر ہوں گے، جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے اس حدیث کو امت میں شرک کے مکمل انکار کے لیے بطور دلیل پیش کرنا درست نہیں۔