امت مسلمہ کی امن پسندی اور انصاف کے مثالی ادوار

امت مسلمہ اور امن و رواداری

امت مسلمہ نے ہر دور میں اسلامی تعلیمات اور عہد رسالت کے مثالی نمونوں کو عملی زندگی میں اپنایا اور ایک پرامن قوم کے طور پر اپنی شناخت قائم کی۔ مسلمانوں نے غیرمسلموں کے ساتھ رواداری اور فراخدلی سے پیش آتے ہوئے ان کے حقوق اور جذبات کا بھرپور خیال رکھا۔ اس مقصد کے لیے بڑی قربانیاں دی گئیں تاکہ معاشرے میں امن کا قیام برقرار رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں فرقہ وارانہ فسادات یا خونریز ہنگاموں کے شواہد نہایت کم ہیں۔ ذیل میں اسلامی عہد حکومت کے مختلف ادوار سے امن و رواداری کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔

عہد صدیقی

داخلی امن اور غیرمسلموں کے حقوق

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں داخلی امن قائم رہا، اور غیرمسلموں کے ساتھ انصاف اور رواداری کا بھرپور مظاہرہ کیا گیا۔ مثلاً:

  • حیرہ کے معاہدے: جب حیرہ فتح ہوا تو عیسائیوں کے ساتھ معاہدہ کیا گیا:
    • ان کی خانقاہیں اور گرجا گھر محفوظ رہیں گے۔
    • ناقوس بجانے اور صلیب نکالنے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
    • فوجی لباس کے علاوہ دیگر لباس پہننے کی آزادی ہوگی، بشرطیکہ مسلمانوں کی مشابہت نہ کریں۔
  • غیرمسلموں کے ساتھ انصاف: ایک واقعہ میں ایک غیرمسلم عورت کا ہاتھ کاٹنے پر حضرت صدیق اکبر نے متعلقہ افسر کو تنبیہ کی اور فرمایا کہ اگر وہ عورت ذمی تھی تو اس پر سخت سزا دینا درست نہ تھا، کیونکہ ہم نے ان کے بڑے گناہوں سے درگزر کیا ہے۔

عہد فاروقی

عدل و انصاف اور غیرمسلموں کے حقوق

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عہد حکمرانی عدل و انصاف، ترقی اور امن و امان کی مثال تھا۔ غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا گیا:

  • بیت المقدس کا معاہدہ: جب بیت المقدس فتح ہوا تو وہاں کے غیرمسلموں کو مکمل تحفظ دیا گیا:
    • ان کے گرجا گھروں اور صلیبوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
    • ان پر مذہب کی تبدیلی کے لیے دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔
    • ان کی جان و مال اور مذہبی آزادی محفوظ رہے گی۔

    (الفاروق، شبلی، ۲/۱۳۷)

  • انصاف کی مثالی مثالیں: ایک نصرانی بادشاہ نے ایک عرب دیہاتی کو مارا، تو حضرت عمر فاروق نے فیصلہ دیا کہ دیہاتی کو حق ہے کہ وہ بادشاہ کو اسی طرح مارے۔
    (اسلام کا نظام امن، ص:۴۹ مفتی ظفیرالدین صاحب)
  • ایک قبطی کے مقدمے میں حضرت عمر نے گورنر کے بیٹے کو سزا دلوائی اور کہا: "لوگوں کو کب سے غلام بنانا شروع کر دیا، حالانکہ وہ آزاد پیدا ہوئے ہیں؟”
    (خلفاء اربعہ، ص:۲، مولانا علی میاں ندوی)
  • جزیہ کی واپسی: جب شام کے علاقے حمص میں مسلمانوں نے جنگی حالات کے باعث شہر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو وہاں کے لوگوں سے وصول شدہ جزیہ واپس کر دیا۔ اس انصاف سے متاثر ہو کر اہل حمص نے مسلمانوں کی حمایت کی۔
    (فتوح البلدان، ج:۱، ص:۱۴۴)

عہد عثمانی

عوامی شکایات کا نظام

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں امن و امان، ترقی، اور عوامی فلاح کا خاص خیال رکھا گیا:

  • آپ جمعہ کے خطبے کے دوران عوام سے افسران کے خلاف شکایات دریافت کرتے اور تحقیقات کے لیے تمام افسران کو طلب کرتے۔
    (مسند احمد بن حنبل، ص:۷۳)
  • غیرمسلموں کے تحفظ: نجران کے عیسائیوں کی شکایات پر حضرت عثمان نے فوری توجہ دی اور ان کے حقوق بحال کیے۔
    (کتاب الخراج، ابو یوسف، ص:۲۷۶)

عہد فاروقی میں ایک منفرد واقعہ

اسکندریہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک تصویر کو ایک سپاہی نے نقصان پہنچایا۔ عیسائیوں نے انصاف کا مطالبہ کیا تو حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: "ہم تمہارے سامنے ہیں، جس کی چاہو آنکھ پھوڑ دو۔” عیسائی اس فراخدلی سے اتنے متاثر ہوئے کہ بدلہ لینے سے دستبردار ہو گئے۔
(خطبات شبلی، ص:۷۳،۷۴)

عہد علی

امن و انصاف کی مثالیں

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں داخلی مسائل کے باوجود غیرمسلموں کے حقوق کا بھرپور تحفظ کیا گیا:

  • ایک غیرمسلموں کی نہر بند ہونے پر حضرت علی نے گورنر کو حکم دیا کہ اس کی بحالی کا فوری انتظام کریں، کیونکہ اس کی بربادی مسلمانوں کے لیے بھی نقصان دہ ہوگی۔
    (تاریخ اسلام، ج:۱، ص:۳۶۸، شاہ معین الدین)
  • ایک گورنر کی سخت مزاجی کی شکایت پر حضرت علی نے فوری اقدام کرتے ہوئے حالات درست کیے۔

نتیجہ

امت مسلمہ کے مختلف ادوار حکومت میں غیرمسلموں کے ساتھ رواداری، انصاف اور امن و امان کا ایسا ماحول قائم کیا گیا جو آج کے دور کے لیے بھی ایک مثالی نمونہ ہے۔ اسلامی حکمرانوں نے غیرمسلم اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا اور عملی طور پر یہ ثابت کیا کہ اسلام عدل و انصاف اور فراخدلی کا دین ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے