امام کو لقمہ دینا
دوران نماز اگر امام کو اس کے بھول جانے پر آیت یاد کروا دی جائے تو یہ عمل نماز فاسد نہیں کرتا بلکہ ایسا کرنا جائز ہے اور اگر اس پر کوئی بھی واضح دلیل نہ ہو تب بھی یہ آیت : وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقواي ”نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو۔“
اس کے لیے کافی ہے جیسا کہ امام شوکانیؒ نے یہی وضاحت فرمائی ہے۔
[السيل الجرار: 240/1 ، نيل الأوطار: 171/2]
➊ حضرت مسور بن یزید مالکی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں قراءت فرما رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز بغیر پڑھے چھوڑ دی۔ (نماز کے بعد ) ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح آیت چھوڑ دی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: هلا ذكرتنيها ”تم نے مجھے وہ آیت یاد کیوں نہیں کروائی ۔“
[حسن: صحيح أبو داود: 802 ، كتاب الصلاة: باب الفتح على الإمام فى الصلاة ، أبو داود: 902 ، بيهقي: 211/3]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت خلط ملط ہو گئی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ”کیا تو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا ”ہاں ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فما منعك؟ ”پھر تجھے کس چیز نے (غلطی بتانے سے) روکے رکھا؟ ۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 803 أيضا ، أبو داود: 907 ، ابن حبان: 2242 ، طبراني كبير: 13216 ، بيهقي: 212/3]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ كنا نفتح على الائمة على عهد رسول الله ”ہم عہد رسالت میں اماموں کو لقمہ دیا کرتے تھے ۔ “
[حاكم: 276/1]
➍ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ إذا استطعمك الإمام فأطعمه ”جب امام تم سے لقمہ طلب کرے تو اسے لقمہ دو۔“
[صحيح: تلخيص الحبير: 513/1 ، ابن أبى شيبة: 72/2]
علاوہ ازیں جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا: لا تفتح على الإمام فى الصلاة
”نماز میں امام کو لقمہ نہ دو۔“ وہ حدیث ضعیف ہے۔
[ضعيف: ضعيف أبو داود: 193 ، كتاب الصلاة باب النهي عن التلقين ، ضعيف الجامع: 6401 ، أبو داود: 908]