ابن ابی شیبہ کے خانوادے کا تعارف
ائمہ و محدثین کے ہاں "ابن ابی شیبہ” کی نسبت بہت معروف ہے۔ اس نسبت کا تعلق اس خاندان کے جد امجد ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان (169ھ) سے ہے۔ ان کے بیٹے کا نام محمد بن ابی شیبہ (182ھ) تھا، جن کے تین بیٹے تھے:
- عثمان (کنیت: ابو الحسن)
- عبداللہ (کنیت: ابو بکر)
- قاسم
عبداللہ ابن ابی شیبہ سب سے زیادہ مشہور ہوئے، جبکہ عثمان ابن ابی شیبہ بھی جلیل القدر محدث تھے۔ قاسم ابن ابی شیبہ سے کچھ روایات مروی ہیں لیکن وہ اپنے بھائیوں کی طرح محدثین میں نمایاں مقام حاصل نہ کرسکے۔
ابو بکر عبد اللہ بن محمد بن ابی شیبہ کی شہرت
ابن ابی شیبہ کے ساتھ سب سے زیادہ شہرت ابو بکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبہ (235ھ) کو حاصل ہوئی۔ ان کی تصانیف مصنف ابن ابی شیبہ اور تفسیر ابن ابی شیبہ دینی علوم کے اہم ماخذ ہیں۔ ان کے بڑے بھائی عثمان بن محمد بن ابی شیبہ (کنیت: ابو الحسن) بھی ایک معتبر محدث تھے، تاہم ان کی کوئی مستقل تصنیف دستیاب نہیں۔
قاری حنیف ڈار کی تنقید اور حقیقت
قاری حنیف ڈار نے عثمان بن ابی شیبہ پر تنقید کرتے ہوئے انہیں دین کا دشمن قرار دیا اور ان پر حد جاری کرنے کی بات کی ہے۔ قاری صاحب نے ابو بکر اور عثمان کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھا اور ابو بکر ابن ابی شیبہ کی کتابیں عثمان ابن ابی شیبہ کی طرف منسوب کر دیں۔
امام عثمان بن ابی شیبہ پر تنقید کی وجوہات
قرآن کی قراءت میں غلطیاں
امام عثمان بن ابی شیبہ پر تنقید کی بنیاد یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کی آیات بعض اوقات غلط پڑھ جاتے تھے اور اصلاح کی صورت میں غلطی تسلیم نہیں کرتے تھے بلکہ مزاحاً بات بدل دیتے تھے۔
علماء کی تشریح
- قرآن کریم اور قراءات میں ان کی مہارت نہیں تھی۔
- ان کا رویہ از راہ تفنن ہوتا تھا۔
علماء کی رائے
علماء نے ان کی اس کمزوری کو بیان کیا لیکن ساتھ ہی ان کی توبہ کی امید ظاہر کی ہے۔ حافظ ذہبی وغیرہ نے اس امکان کا اظہار کیا کہ شاید وہ اپنے اس عمل سے تائب ہوچکے ہوں۔
حنیف ڈار کا الزام
قاری حنیف ڈار نے اس مسئلے کو اس انداز میں پیش کیا کہ گویا امام عثمان بن ابی شیبہ قرآن کریم کا استہزاء یا تحریف کرنے کی کوشش کر رہے تھے، جو سراسر بے بنیاد ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کے بھائی ابو بکر ابن ابی شیبہ اور دیگر علما کے حلقے ان کے خلاف ضرور کارروائی کرتے۔
فن حدیث اور قراءات میں تخصص کا فرق
تاریخ میں بہت سے محدثین قراءات کے فن میں کمزور تھے اور قراء بعض اوقات حدیث کے میدان میں۔ اسی طرح عثمان بن ابی شیبہ حدیث کے بڑے ماہر تھے لیکن قراءات میں ان سے غلطیاں سرزد ہوئیں، جنہیں علماء نے کھل کر بیان کیا تاکہ امت کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔
قاری حنیف ڈار کی تضاد بیانی
قاری حنیف ڈار نے عثمان بن ابی شیبہ کی غلطیوں کو ان کے خلاف استعمال کیا، لیکن یہی راوی اگر کسی حدیث یا محدث کے حق میں بات کریں تو اسے "روایت پرستی” کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ یہ رویہ علمی دیانت کے خلاف ہے۔
امام عثمان بن ابی شیبہ کا مقام و مرتبہ
اکابر علماء کی رائے
- امام احمد بن حنبل اور احمد بن صالح عجلی نے ان کی ثقاہت کو تسلیم کیا۔
- امام یحییٰ بن معین کے نزدیک ان کی دیانت و امانتداری مسلمہ ہے۔
- ابو حاتم رازی نے انہیں بلند پایہ اور سچا انسان قرار دیا۔
- بخاری، مسلم اور دیگر محدثین نے ان کی روایات اپنی کتابوں میں نقل کیں۔
(تہذیب الکمال 19/478)
محدثین کا اعتماد
احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، بخاری، مسلم، ابو داود جیسے ائمہ نے انہیں دین کا خادم اور خیرخواہ سمجھا۔ ایسے شخص کو دین دشمن کہنا انتہائی غیر علمی رویہ ہے۔
امام عثمان بن ابی شیبہ کی خدمت اسلام
احادیث کی روایت
امام عثمان بن ابی شیبہ سے حدیث کی مشہور 22 کتابوں میں تقریباً 2000 روایات مروی ہیں، جن میں سے 200 روایات صحیح بخاری اور مسلم میں شامل ہیں۔
موضوعات
- تعلیم و تبلیغ کی فضیلت
- جہاد فی سبیل اللہ
- عذاب قبر سے متعلق احادیث
- نماز، زکاۃ، حج، روزے اور تجارت کے مسائل
- انبیاء اور صحابہ کے فضائل
- روزمرہ زندگی کے آداب اور اخلاقیات
بخاری میں روایات کی مثالیں
- نماز تہجد کے احکام
- قربانی کے وقت کا بیان
- دعا اور زہد و تقویٰ سے متعلق احادیث
- قرآن کی تفسیر سے متعلق احادیث
قرآن اور حدیث کا تعلق
حدیث کی اہمیت
قرآن کریم کے احکام کو تفصیل سے بیان کرنے میں احادیث کا کردار بنیادی ہے۔ جن لوگوں نے قرآن کی خدمت کی، وہی احادیث کو ماننے والے تھے۔ تاریخ میں احکام القرآن، تدوین قرآن، اور دیگر علوم القرآن انہی لوگوں کی کاوشیں ہیں۔
منکرین حدیث کا رویہ
منکرین حدیث قرآن کا نام لے کر احادیث سے متنفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو علمی بددیانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث دونوں ایک دوسرے کے قریب کرتے ہیں، نہ کہ دور۔
نتیجہ
امام عثمان بن ابی شیبہ جیسے عظیم محدثین پر بے بنیاد الزامات لگانا علمی خیانت ہے۔ قرآن و حدیث دونوں دین کے مکمل ہونے کا ذریعہ ہیں۔ اللہ ہمیں قرآن و حدیث پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔