بوصیری لقب والے دو مشہور افراد
بوصیری نام سے منسوب دو افراد زیادہ معروف ہیں:
➊ حافظ شہاب الدین ابو العباس احمد بن ابی بکر بن اسماعیل البوصیری القاہری
یہ 762 ہجری میں پیدا ہوئے اور 840 ہجری میں 78 سال کی عمر میں وفات پائی۔
یہ حافظ بلقینی، حافظ عراقی، حافظ ہشیمی، اور حافظ ابن حجر رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر محدثین کے شاگرد تھے۔
ان کی مشہور تصانیف میں:
◄ زوائد سنن ابن ماجہ
◄ اتحاف الخیرۃ المہرۃ فی زوائد المسانید العشرۃ شامل ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب انباء الغمر (8/431) میں ان کی تعریف کی ہے۔
ان کے حالات درج ذیل کتب میں تفصیل سے موجود ہیں:
◈ انباء الغمر
◈ الضوء اللامع للسخاوی (1/251)
◈ حسن المحاضرہ للسیوطی (1/363)
◈ شذرات الذہب (7/233)
◈ النجوم الزاہرہ (15/209)
◈ ذیل طبقات الحفاظ (379)
یہ ایک محدث، فاضل، اور نیک شخص تھے، مگر ان کے مزاج میں سختی تھی اور ان کے نسخوں میں متون و اسماء کی تحریفات پائی جاتی تھیں۔ رحمہ اللہ۔
➋ محمد بن سعید بن حماد بن حسن البوصیری الولاصی
ان کی ولادت 608 ہجری اور وفات 695 ہجری میں ہوئی۔
یہ حافظ ابن حجر اور حافظ ذہبی سے پہلے کا زمانہ تھا، لیکن کسی معتبر محدث نے ان کا ذکر نہیں کیا۔
نہ ہی کسی حدیث کے معتبر عالم نے انہیں ثقہ، صدوق، یا موثق قرار دیا ہے۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ مجہول الحال شاعر تھے۔
قصیدہ بردہ میں موجود غلو اور کتاب و سنت کے خلاف اشعار
قصیدہ بردہ میں ایسے اشعار موجود ہیں جو غلو پر مبنی اور کتاب و سنت کے خلاف ہیں، مثلاً:
"الفصل العاشر: في المناجاة وعرض الحاجات”
"يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به
سواك عند حلول الحادث العمم”
"اے بزرگترین مخلوقات یا اے بہترین رسل! بوقت نزول حادثہ عظیم و عام کے آپ کے سوا کوئی ایسا نہیں ہے جس کی میں پناہ میں آؤں، صرف آپ ہی کا بھروسہ ہے۔”
(عطر الوردہ فی شرح البردہ، ترجمہ از ذوالفقار علی دیوبندی، ص 85)
یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے مخالف ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَمَا النَّصرُ إِلّا مِن عِندِ اللَّهِ العَزيزِ الحَكيمِ ﴿١٢٦﴾
… سورة آل عمران
"اور مدد نہیں مگر اللہ غالب حکمت والے کے پاس سے۔”
(آل عمران: 126، ترجمہ احمد رضا خان بریلوی، ص 106)
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو ماوراءِ اسباب مدد کے لیے پکارنا درست نہیں
قرآن کے مطابق، غیبی اور مافوق الاسباب مدد کرنا صرف اللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے۔
اس مدد کے لیے رسول اللہ ﷺ کو براہ راست مخاطب کرنا شرعاً غلط ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ایسے شخص کے بارے میں فرمایا جو کہے "یا رسول اللہ! میری مدد کریں”:
"لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا”
"میں تیرے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔”
(صحیح بخاری: 3073، صحیح مسلم: 1831)
یہ حدیث سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 188 سے بھی مؤید ہے، جو واضح کرتی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے اختیار میں یہ چیزیں نہیں دی گئیں۔
صحیح حدیث ہر حال میں حجت ہے
صحیح حدیث بذات خود حجت ہے، چاہے عقائد و احکام کا مسئلہ ہو یا فضائل و مناقب کا۔
چاہے اس کی تائید قرآن میں واضح طور پر موجود ہو یا نہ ہو، بہرحال صحیح حدیث حجت ہے۔ والحمدللہ۔
قصیدہ بردہ میں ایک اور شعر
قصیدہ بردہ میں ایک اور شعر ہے:
"فمبلغ العلم فيه انه بشر
وانه خير خلق الله كلهم”
"ہمارے علم اور تحقیق کی غایت یہی ہے۔۔۔ کہ وہ انسان تھے اور سب مخلوقات میں بہترین تھے۔”
(قصیدہ بردہ مع ترجمہ ملک محمد اشرف نقشبندی، ص 32)
ترجمے میں غالباً "اور اتم” کے الفاظ ہیں۔ واللہ اعلم۔
اہم نکتہ
بوصیری صاحب نے نبی کریم ﷺ کو "بشر” اور "خير خلق الله كلهم” قرار دیا ہے۔
جبکہ بعض لوگ "بشر” کے لفظ سے چڑتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں۔
جبکہ حقیقت میں نبی کریم ﷺ بشر اور سب سے افضل ہیں، جو کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔
نتیجہ
◄ حافظ شہاب الدین بوصیری ایک محدث اور فاضل شخص تھے۔
◄ محمد بن سعید بوصیری ایک مجہول الحال شاعر تھے، جن کے بارے میں کسی معتبر محدث نے کچھ نہیں لکھا۔
◄ قصیدہ بردہ میں موجود کئی اشعار عقیدۂ توحید کے خلاف ہیں۔
◄ قرآن و حدیث کے مطابق، غیر اللہ سے مافوق الاسباب مدد مانگنا جائز نہیں۔
◄ نبی کریم ﷺ بھی خود کسی کی غیبی مدد کے مالک نہیں، جیسا کہ صحیح احادیث میں واضح ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب