اللہ کے ولی کون اور کیسے ہوتے ہیں؟
یہ تحریر ابو حمزہ عبد الخالق صدیقی کی کتاب اولیاء اللہ کی پہچان سے ماخوذ ہے۔

اولیاء اللہ کون؟

اولیاء سے مراد وہ مخلص اہل ایمان ہیں جو اللہ کی بندگی اور گناہوں سے اجتناب کی وجہ سے اس سے قریب ہو جاتے ہیں۔ ”ولی“ کا معنی ”قریب“ ہے ۔ یعنی مومن جب ایمان اور عمل صالح پر کاربند ہوتا ہے ، اور شرک اور دوسرے گناہوں سے اجتناب کرتا ہے ، تو اللہ رب العزت کے قریب ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ. لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۚ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ.﴾
[يونس:62 ،63، 64]
”یاد رکھو ! بے شک اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے، اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (گناہوں سے) بچتے رہے، ان کے لیے خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی، اللہ کی باتوں کے لیے کوئی تبدیلی نہیں یہی بہت بڑی کامیابی ہے ۔ “
عبدالرحمن بن ناصر السعد رحمہ اللہ علیہ ان آیات کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے اولیاء اور محبوب لوگوں کے بارے میں خبر دیتے ہوئے ان کے اعمال و اوصاف اور ان کے ثواب کا ذکر کرتا ہے ، چنانچہ فرماتا ہے: ﴿أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ﴾ ”خبردار! اللہ کے جو دوست ہیں ان پر کوئی خوف نہ ہو گا۔“ یعنی قیامت کے روز میدان محشر میں جو خوفناک اور ہول ناک حالات ہوں گے، وہاں انہیں کوئی خوف نہ ہوگا ﴿وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ ”اور نہ وہ غمگین ہوں گے“ ان اعمال پر جو انہوں نے پہلے کیے ہوں گے، کیونکہ انہوں نے اعمالِ صالحہ کے سوا کچھ نہیں کیا ہو گا، چونکہ انہیں کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمزدہ ہوں گے، اس لیے وہاں ان کے لیے امن وسعادت اور خیر کثیر ہو گا ، جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اولیاء اللہ کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا: ﴿الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ”وہ جو ایمان لائے“ یعنی جو اللہ تعالیٰ پر ، اس کے فرشتوں ، اس کی بھیجی ہوئی کتابوں، اس کے مبعوث کیے ہوئے رسولوں، یوم آخرت اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے ، اور تقویٰ کے استعمال، اللہ تعالیٰ کے اوامر کی فرمانبرداری اور اس کے نواہی سے اجتناب کر کے اپنے ایمان کی تصدیق کی ۔
پس وہ ہر شخص جو مومن اور متقی ہے ، وہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہے، اسی لیے فرمایا ﴿لَهُمُ الْبُشْرَىٰ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ﴾ ”ان کے لیے خوش خبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں“ دنیا کے اندر بشارت سے مراد ثنائے حسن، مومنوں کے دلوں میں محبت و مودت ، سچے خواب، بندہ مومن کا اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم سے بہرہ ور ہونا، اللہ تعالیٰ کا بہترین اعمال و اخلاق کے راستوں کو آسان کر دینا اور بندے کو بُرے اخلاق سے دُور کر دینا ہے ،اور آخرت کی بشارتوں میں اولین بشارت یہ ہے کہ روح قبض کیے جانے کے موقع پر ان کو بشارت دی جاتی ہے ۔ تفسیر السعدی، تحت هذه الآية

ان کا ایمان کیسا ہوتا ہے؟

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ﴾
[فصلت:30]
”بے شک وہ لوگ جنہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے پھر وہ قائم رہے ، ان پر فرشتے اُترتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ خوف نہ کرو اور نہ غم زدہ ہو، اور جنت کی خبر سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ، اور قبر میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کی خوش خبری دی جائے گی اور قیامت کے روز نعمتوں بھری جنت میں دخول اور درد ناک عذاب سے نجات کے ساتھ اس خوشخبری کا اتمام ہوگا۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ رقم طراز ہیں :
” اولیاء اللہ وہ ہیں جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہو ، جن کا ظاہر تقویٰ اور پرہیزگاری میں ڈوبا ہوا ہو ، جتنا تقوی ہو گا اتنی ہی ولایت ہو گی، ایسے لوگ محض نڈر اور بے خوف ہیں، قیامت کے دن کی وحشت ان سے دُور ہے، نہ وہ کبھی غم و رنج سے آشنا ہوں گے، دنیا میں جو چھوٹ جائے اس پر انہیں حسرت و افسوس نہیں ہوتا۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود، سید نا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بھی بہت سے سلف صالحین فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ وہ ہیں جن کا چہرہ دیکھنے سے اللہ تبارک و تعالی یاد آ جائے۔ “

ایمان کے بدلے میں اللہ کا انعام:

اللہ تعالیٰ اہل ایمان و اسلام کو اپنا ولی رکھتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۖ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ ۗ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾
[البقرة:257]
”ایمان لانے والوں کا کارساز ( دوست ) اللہ تعالیٰ خود ہے، وہ انہیں اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے، اور کافروں کے اولیاء شیاطین ہیں۔ وہ انہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ جہنمی ہیں جو ہمیشہ اسی میں پڑے رہیں گے۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں :
”اللہ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ اس کی رضامندی کے طلب گار کو وہ سلامتی کی رہنمائی کرتا ہے، اور کفر و شک کے اندھیروں سے نکال کر نور حق کی صاف روشنی میں لا کھڑا کرتا ہے، کفار کے ولی شیاطین ہیں جو جہالت و ضلالت کو ، کفر وشرک کو مزین کر کے انہیں ایمان سے اور توحید سے روکتے ہیں، اور یوں نور حق سے ہٹا کر ناحق کے اندھیروں میں جھونک دیتے ہیں ، یہی کافر ہیں اور یہ ہمیشہ دوزخ میں ہی پڑے رہیں گے۔“
اور عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں: ﴿اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا﴾ ”ایمان والوں کا کارساز اللہ خود ہے ۔“ یہ آیت ان کے اپنے رب سے دوستی پر مشتمل ہے، بایں طور کہ وہ اپنے رب سے محبت رکھتے ہیں پس اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے ، اس کے پیاروں سے محبت کرتے اور اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر لطف و کرم اور احسان فرماتے ہوئے انہیں کفر ، معاصی اور جہل کے اندھیروں سے نکالا ، اور ایمان، نیکی اور علم کی روشنی میں پہنچا دیا، اس کے نتیجے میں وہ قبر ، حشر اور قیامت کے اندھیروں سے محفوظ رہ کر دائمی نعمت ، راحت اور سرور والی جنت میں پہنچ گئے ۔ ﴿وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ﴾ ”اور کافروں کے اولیاء شیطان ہیں ۔ پس انہوں نے شیطان سے اور اس کی پارٹی سے دوستی کی ۔ اپنے مالک اور آقا کی دوستی چھوڑ دی ۔ اس کی سزا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ان پر شیطانوں کو مسلط کر دیا ، جو انہیں گناہوں کی طرف ہانکتے اور بُرائی پر آمادہ کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں ایمان علم اور نیکی کے نور سے ہٹا کر کفر ، معاصی اور جہالت کے اندھیروں میں لے جاتے ہیں۔ ان کے نتیجے میں وہ نیکیوں سے محروم ہو جاتے ہیں اور نعمت اور خوشی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ حسرت کے جہان (جہنم) میں بھی شیطان کی جماعت اور اس کے دوست ہی شمار ہوں گے ۔ اس لیے اللہ نے فرمایا: ﴿أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾ ” یہ لوگ جہنمی ہیں۔ وہ ہمیشہ اس میں پڑے رہیں گے۔ “
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتَابَ ۖ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ﴾
[الأعراف:196]
” بیشک میرا کارساز اللہ ہے، جس نے کتاب نازل کی ، اور وہی نیکوں کا یارو مدد گار بنتا ہے۔“
عبدالرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
” پس صالح مومن جب ایمان اور تقویٰ کے ذریعے سے اپنے رب کو اپنا دوست اور سر پرست بنا لیتے ہیں، اور کسی ایسی ہستی کو اپنا دوست نہیں بناتے جو کسی کو نفع پہنچا سکتی ہے نہ نقصان، تو اللہ تعالیٰ ان کا دوست اور مددگار بن جاتا ہے، ان کو اپنے لطف وکرم سے نوازتا ہے، ان کے دین و دنیا کی بھلائی اور مصالح میں ان کی مدد کرتا ہے، اور ان کے ایمان کے ذریعے سے ان سے ہر ناپسندیدہ چیز کو دور کر دیتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا﴾
[الحج:38]
” اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے ان کے دشمنوں کو ہٹاتا ہے۔ “
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
”سنو میں تو اللہ تعالیٰ کو اپنا حمایتی اور مدد گار سمجھتا ہوں، وہی میرا بچانے والا ہے اور وہ مجھے کافی وافی ہے، اس پر میرا بھروسہ ہے اسی سے میرا لگاؤ ہے ، میں ہی نہیں، ہر نیک بندہ یہی کرتا ہے۔ اور وہ بھی اپنے تمام بچے غلاموں کی نگہبانی اور حفاظت کرتا رہتا ہے، اور کرتا رہے گا۔ میرے بعد بھی ان سب کا نگران اور محافظ وہی ہے۔ “

اولیاء اللہ کا کردار اور ان کا تعلق خالق و مخلوق کے ساتھ :

قرآن میں ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ .‏ فَتَرَى الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ يُسَارِعُونَ فِيهِمْ يَقُولُونَ نَخْشَىٰ أَن تُصِيبَنَا دَائِرَةٌ ۚ فَعَسَى اللَّهُ أَن يَأْتِيَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِهِ فَيُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا أَسَرُّوا فِي أَنفُسِهِمْ نَادِمِينَ ‎.‏ وَيَقُولُ الَّذِينَ آمَنُوا أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ ۙ إِنَّهُمْ لَمَعَكُمْ ۚ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَأَصْبَحُوا خَاسِرِينَ . يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَائِمٍ ۚ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ‎.‏ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ‎.وَمَن يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ .وَإِذَا نَادَيْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ اتَّخَذُوهَا هُزُوًا وَلَعِبًا ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ ‎. قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَاسِقُونَ. قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُم بِشَرٍّ مِّن ذَٰلِكَ مَثُوبَةً عِندَ اللَّهِ ۚ مَن لَّعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ ۚ أُولَٰئِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَأَضَلُّ عَن سَوَاءِ السَّبِيلِ .﴾
[المائدة:51 تا 60]
”اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور تم میں سے جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو بیشک وہ ان میں سے ہوگا، بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ پس تو دیکھے گا جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے، وہ ان (یہود و نصاریٰ) کی طرف دوڑتے ہیں، ہمیں ڈر ہے کہ ہم پر گردش زمانہ نہ آ جائے ،سو قریب ہے کہ اللہ فتح لائے یا اپنے پاس سے کوئی معاملہ، پھر تو یہ اپنے دلوں میں چھپائی ہوئی باتوں پر نادم ہو نے لگیں گے اور کہیں گے، یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے مبالغہ سے اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمھارے ساتھ ہیں، اور مومن ، ان کے عمل ضائع ہو گئے ، پس وہ نقصان اٹھانے والے ہو گئے۔اے ایمان والو ! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے تو عنقریب اللہ ایسی قوم لائے گا جن سے وہ محبت رکھتا ہو گا، اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ وہ مومنوں پر نرم دل ہوں گے، کافروں پر سخت ، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ وسیع حکمت والا ہے۔ بلاشبہ تمھارا دوست اللہ ، اس کا رسول اور وہ مومن لوگ ہیں، جو نماز قائم کرتے اور زکوۃ دیتے ہیں، اور (اللہ کے حضور) رکوع کرنے والے ہیں۔ جو دوست رکھے اللہ اور اس کے رسول کو اور ایمان والوں کو ، تو بیشک اللہ کی جماعت ہی (سب پر) غالب ہو گی۔ اے ایمان والو ! (دوست) نہ بناؤ ان لوگوں کو جنھوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنا لیا ( یعنی وہ ) جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور نہ ہی کافروں کو دوست بناؤ، اور اللہ سے ڈرو، اگر تم ایمان والے ہو۔ اور جب تم نماز کے لیے پکارتے ہو ( اذان دیتے ہو ) تو وہ اسے ایک مذاق اور کھیل ٹھہراتے ہیں، یہ اس لیے کہ وہ بے عقل ہیں۔ آپ کہہ دیں، اے اہل کتاب ! کیا تم ہم سے صرف اس وجہ سے دشمنیاں کر رہے ہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر، اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا ، اور جو پہلے اس سے نازل کیا گیا، اور یہ کہ تم میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ آپ کہہ دیں کیا میں تمہیں بتلاؤں اللہ کے ہاں اس سے بدتر جزا پانے والا وہ ہے جس پر اللہ نے لعنت کی اور اس پر غضب کیا، اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دیا، اور بعض کو طاغوت کے بندے بنا دیا۔ یہی لوگ بدتر درجے والے اور سیدھے راستے سے زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ “
مذکورہ بالا آیات میں یہود ونصاری سے موالات ( دلی دوستی) و محبت کا رشتہ قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے دشمن ہیں، اور اس پر اتنی سخت وعید بیان فرمائی کہ جو ان سے دوستی رکھے گا وہ انہی میں سے سمجھا جائیگا۔
مرتدین کے مقابلے میں اللہ جس قوم کو کھڑا کرے گا، ان کی چار نمایاں صفات بیان کی جا رہی ہیں:
1۔ اللہ سے محبت کرنا ، اور اس کا محبوب ہونا۔
2۔ اہل ایمان کے لیے نرم اور کفار کے لیے سخت ہونا۔
3۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔
4۔ اور اللہ کے بارے میں کسی ملامت سے نہ ڈرنا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان صفات سے متصف اور ان خوبیوں کا مظہر تھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے مشرف فرمایا، اور دنیا ہی میں اپنی رضامندی کی سند سے نواز دیا۔
قرآن کی اس بیان کردہ حقیقت کا مشاہدہ ہر شخص کر سکتا ہے کہ یہودونصاری کا آپس میں عقائد کے لحاظ سے شدید اختلاف اور باہمی بغض وعناد پایا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک دوسرے کے معاون و محافظ ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہی اپنے نیک بندوں کا مددگار ہے ۔ قرآن میں مذکور ہے کہ یوسف علیہ السلام نے دعا فرمائی:
﴿رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ﴾
[يوسف:101]
”اے میرے رب! تو نے مجھے ملک عطا فرمایا، اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھائی، اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، تو ہی میرا دنیا اور آخرت میں یارومددگار ہے، تو مجھے اسلام کی حالت میں فوت کر ، اور مجھے اور نیکو کاروں میں ملا دے ۔“

مؤمنین کو ہدایات اور اہل اہواء کا کردار :

نیز فرمایا:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ اللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ ۖ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ ۗ وَلَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ.إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ.وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرَّأَ مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا ۗ كَذَٰلِكَ يُرِيهِمُ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ ۖ وَمَا هُم بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ .‏ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ. إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ .وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ . وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً ۚ صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ‎. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ‎.إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎. إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَةَ بِالْهُدَىٰ وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ.﴾
[البقرة:165 تا 175]
”بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے۔ اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں کاش کہ مشرک لوگ جانتے جبکہ اللہ کے عذابوں کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کے لیے ہے اور اللہ تعالیٰ عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے) جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہو جائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور سب رشتے ناطے ٹوٹ جائیں گے اور تابعد ارلوگ کہنے لگیں گے: کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کے لیے ، یہ ہرگز جہنم سے نہ نکلیں گے۔ لوگو! زمین میں جتنی بھی حلال اور پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ پیو اور شیطانی راہ پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تمہیں صرف برائی اور بے حیائی کا اور اللہ تعالیٰ پر ان باتوں کے کہنے کا حکم دیتا ہے جن کا تمہیں علم نہیں ۔ اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے نہ کچھ عقل رکھتے ہوں اور نہ ہدایت یافتہ ہوں ۔ کفار کی مثال ان جانوروں کی طرح ہے جو اپنے چرواہے کی صرف پکار اور آواز ہی سنتے ہیں (سمجھتے نہیں) وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل نہیں۔ اے ایمان والو ! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں دے رکھی ہیں انہیں کھاؤ پیو اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرو، اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔ تم پر مردہ اور ( بہتا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پر پکارا گیا ہو حرام ہے، پھر جو مجبور ہو جائے ، اور وہ حد سے بڑھنے والا، زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے۔ بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں۔ یقین مانو کہ یہ پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی اور مغفرت کے بدلے عذاب کو خرید لیا ہے سو وہ آگ پر کس قدر صبر کرنے والے ہیں۔ “
مذکورہ بالا آیتوں میں آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بے بسی اور بے وفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن وہاں اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کاش وہ دنیا میں ہی شرک سے توبہ کر لیں ۔
یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام مت کرو جس طرح مشرکین نے کیا کہ وہ اپنے بتوں کے نام وقف جانوروں کو حرام کر لیتے تھے جسکی تفصیل کے لیے سورہ انعام دیکھیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم ، وإنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم ، وحرمت عليهم ما احللت لهم
صحیح مسلم ، کتاب الجنة ونعيمها ، باب الصفات التي يعرف بها في الدنيا اهل الجنة واهل النار ، رقم: 2865
”میں نے اپنے بندوں کو دین حنیف پر پیدا کیا ، پس شیطان نے ان کو ان کے دین سے گمراہ کر دیا، اور جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کیں تھیں وہ اس نے ان کے لیے حرام کر دیں۔ “

اللہ کس کا ولی ہے؟

﴿إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۚ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۖ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ﴾
[الجاثية:19]
”بیشک وہ اللہ کے مقابلے میں ہرگز آپ کے کسی کام نہ آئیں گے، اور بیشک ظالم ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور اللہ پرہیزگاروں کا دوست ہے ۔ “
عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:
یعنی اگر تو ان کی خواہشات نفس کی پیروی کرے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں تجھے کوئی فائدہ نہ دے سکیں گے کہ تجھے کوئی بھلائی حاصل ہو، یا تجھ سے کوئی بُرائی دُور ہو، تیرے لیے درست نہیں کہ تو ان کی موافقت کرے، اور ان سے موالات رکھے، کیونکہ آپ اور وہ ایک دوسرے سے علیحدہ ہیں، اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ ﴿وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ﴾ ”اور اللہ متقیوں کا دوست ہے ۔“ اللہ تعالیٰ متقین کو ان کے تقویٰ اور نیک عمل کے سبب سے اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے ۔
اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
”پرہیزگاروں کا ولی و ناصر ، رفیق و کارساز پروردگارِ عالم ہے، جو انہیں اندھیروں سے ہٹا کر نور کی طرف لے جاتا ہے، اور کافروں کے دوست شیاطین ہیں، جو انہیں روشنی سے ہٹا کر اندھیروں میں جھونکتے ہیں، یہ قرآنِ حکیم ان لوگوں کے لیے جو یقین رکھتے ہیں ، دلائل کے ساتھ ہی ہدایت و رحمت ہے ۔ “

مؤمنین کن کو دوست بنائیں؟

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ﴾
[الممتحنة:1]
”اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو! میرے اور اپنے دشمنوں کو اپنا دوست نہ سمجھو ، تم تو محبت کی بنیاد ڈالنے کے لیے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو، اور وہ اس حق کے ساتھ جو تمہارے پاس آچکا ہے کفر کرتے ہیں، پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اور خود تمہیں بھی محض اس وجہ سے نکالتے ہیں کہ تم اپنے پروردگار پر ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کے لیے، اور میری رضامندی کی طلب میں لائے ہو (ان سے دوستیاں نہ کرو) تم ان کے پاس محبت کا پیغام پوشیدہ پوشیدہ بھیجتے ہو، اور مجھے خوب معلوم ہے جو تم نے چھپایا اور جو تم نے ظاہر کیا، تم میں سے جو بھی اس کام کو کرے گا ، پس وہ یقیناً راہ راست سے بہک جائے گا۔ “
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أحب الله العبد نادى جبريل: إن الله يحب فلانا ، فأحببه ، فيحبه جبريل ، فينادي جبريل فى أهل السماء ، إن الله يحب فلانا ، فأحبوه ، فيحبه أهل السماء ، ثم يوضع له القبول فى الأرض
صحیح بخاری ، کتاب بدء الخلق ، رقم 3209۔ صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب ، رقم 2637 – مؤطا مالك : 953/2 ، رقم: 1710
” جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو دوست رکھتا ہے تو جبرئیل کو با آواز بلند یہ بتاتا ہے کہ دیکھو! میں فلاں شخص کو دوست رکھتا ہوں، پس تم بھی اس سے محبت رکھو ، تو وہ جبرائیل اس کی تمام آسمان والوں میں بلند آواز سے منادی کر دیتے ہیں کہ فلاں سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے۔ لہذا اس سے محبت رکھو آسمان ولے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر ساری زمین والوں کے دلوں میں اس کی محبت و شہرت اتار دی جاتی ہے۔ “
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
من آل محمد ؟ فقال : كل تقي وتلا رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن اولياء ه إلا المتقون
المعجم الاوسط : 338/3
”بے شک فلاں خاندان والے میرے دوست نہیں ، میرے آل تو صرف متقی لوگ ہیں۔ اور پھر آپ نے قرآن کی آیت پڑھی کہ آپ کے دوست صرف متقی ہیں۔“

جو اللہ کا ولی بننے کی کوشش نہیں کرتا :

﴿وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ .قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ.﴾
[سبأ:40،41]
” اور جس دن وہ ان سب کو جمع کر لے گا، پھر فرشتوں سے فرمائے گا: کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے : تیری ذات پاک ہے، تو ہمارا دوست (سرپرست) ہے، نہ کہ یہ بلکہ وہ لوگ تو جنوں کی عبادت کرتے تھے، ان میں سے اکثر انہی پر ایمان رکھنے والے تھے ۔ “

اولیاء کی راتیں اور ان کا ابدی ٹھکانہ :

﴿إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ . تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ‎.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُم مِّن قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ .أَفَمَن كَانَ مُؤْمِنًا كَمَن كَانَ فَاسِقًا ۚ لَّا يَسْتَوُونَ ‎.‏ أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَىٰ نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.﴾
[السجدة:15 تا 19]
”ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں، جنہیں جب بھی نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدے میں گر پڑتے ہیں، اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے ہیں، اور تکبر نہیں کرتے۔ ان کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں، اور وہ اپنے رب کو خوف اور امید کیساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک میں سے کیا کچھ چھپا کر رکھا ہے، اس عمل کی جزا کے لیے جو وہ کیا کرتے تھے۔ تو کیا وہ شخص جو مومن ہو اس کی طرح ہے جو نا فرمان ہو یہ برابر نہیں ہو سکتے۔ جن لوگوں نے ایمان قبول کیا، اور نیک اعمال بھی کیے ان کے لیے ہمیشگی والی جنتیں ہیں ، مہمانداری ہے ان کے اعمال کے بدلے جو وہ کرتے تھے ۔“
یعنی اطاعت وفرمانبرداری کا راستہ اختیار کرتے ہیں، جاہلوں اور کافروں کی طرح تکبر نہیں کرتے، اس لیے کہ اللہ کی عبادت سے تکبر کرنا جہنم میں لے جانے کا سبب ہے ۔
﴿إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ﴾
[غافر:60]
”بے شک جو لوگ اللہ کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔“
اس لیے اہل ایمان کا معاملہ ان کے برعکس ہوتا ہے، وہ اللہ کے سامنے ہر وقت عاجزی، ذلت و مسکینی اور خشوع و خضوع کا اظہار کرتے ہیں۔

اولیاء اللہ کی امتیازی صفات :

﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾
[آل عمران:134]
”جو لوگ آسانی اور تنگی میں (اللہ کے راستے میں) خرچ کرتے ہیں، غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ “
عن أبى كبشة الأنماري أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ثلاثة أقسم عليهن وأحدثكم حديثا فاحفظوه ، قال: ما نقص مال عبد من صدقة ، ولا ظلم عبد مظلمة فصبر عليها إلا زاده الله عزا، ولا فتح عبد باب مستلة إلا فتح الله عليه باب فقر
سنن ترمذی ، کتاب الزهد، رقم : 2325 ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : تین باتوں پر میں قسم کھاتا ہوں:
1۔ ایک تو یہ کہ صدقہ سے مال نہیں گھٹتا۔
2۔ دوسرے یہ کہ عفو و درگزر کرنے سے انسان کی عزت بڑھتی ہے۔
3۔ تیسری یہ کہ جو بندہ مانگنے کا دروازہ کھولتا ہے، اللہ اس کے لیے فقر وغربت کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو ؟ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! کوئی نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو دیکھتا ہوں کہ تم اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال چاہتے ہو، اس لیے کہ تمہارا مال تو درحقیقت وہ ہے جو تم اللہ کی راہ میں اپنی زندگی میں خرچ کر دو اور جو چھوڑ کر جاؤ وہ تمہارا مال نہیں، بلکہ تمہارے وارثوں کا مال ہے تو تمہارا اللہ کی راہ میں کم خرچ کرنا اور زیادہ جمع کرنا یہ دلیل ہے اس امر کی کہ تم اپنے مال سے اپنے وارثوں کے مال کو زیادہ عزیز رکھتے ہو، پھر فرمایا: تم پہلوان کسے جانتے ہو؟ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! اُسے جسے کوئی گرا نہ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں، بلکہ حقیقتاً زور دار پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابو رکھے۔ پھر فرمایا: بے اولاد کسے کہتے ہو؟ لوگوں نے کہا: جس کی اولاد نہ ہو۔ فرمایا: نہیں بلکہ فی الواقع بے اولاد وہ ہے جس کے سامنے اس کی کوئی اولاد مری نہ ہو ۔ “
صحيح مسلم، کتاب البر والصلة ، رقم: 2608

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے